Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

تاخیرِ نکاح اسبـاب و قبائح


عنــــوان : تاخیرِ نکاح اسبـاب و قبائح 

-----------------------------------------------------
الحمدللّٰه العظیم والصلاة والسلام علیٰ خاتم الانبیاء والمرسلین و من سار علیٰ نھجھم الیٰ یوم الدین و بعد !

" نکاح " اِنسانی معاشـرت کا نقطہ آغاز ، عفّت و عصمت کا محافظ ، بلندی کردار اور پاکیزہ نسب کا ضامن ، ذہنی ،جسمانی ،روحانی ،سماجی  اخلاقی و نفسیاتی مفسدات کا معالج ، شریف خاندان اور صالح معاشرے کے قیام کا موجب ہے جسے اِسلام نے عام ضروریاتِ زندگی کی طرح بےحد آسان بنایا تاکہ معاشرے میں نہ کوئی مرد غیر شادی شدہ رہے اور نہ ہی کوئی عورت بیوہ یا مطلقہ تنہا بےیار و مددگار چھوڑ دی جائے  

لیکـــــــــن صـد حیف ! الحاد و دہریت ، فحاشی و عریانیت ، ہندوانہ رسومات کے چلتے یہ سنتِ مبارکہ نا ختم ہونے والے خود ساختہ معیارات ، کفو کے نام پر بےجا غلو ، مادّیت و دنیا پرستی اور اسراف و تبذیر کی نذر ہوگئی اور ایک معاشرتی المیہ بن کر اُبھری جس کی بروقت ادائیگی کا رجحان اپنے آخری مرحلے میں ہے ـ

اِس مختصر سے مضمون میں ہـم تاخیر سے نکاح کے چند اسباب کا تعاقب کریں گے جو نوجوانانِ ملّت کے کردار کو کھوکھلا ، اور اُن کے دامن کو داغ دار کررہے ہیں تو وہیـں حّوا کی بیٹیوں کو حیا سوزی کے عمیق و ناقابلِ واپسی دلدل میں دھکیل رہے ہیں :- 

١-: والدین کی غفلت و لا پرواہی :: 

قرونِ مفضلّہ سے لے کر طویل صدیوں تک اسلامی معاشرے میں سنِ شعور کے ساتھ ہی نکاح فرضِ عین سمجھ کر انجام دیا جاتا تھا ــ 

کچھ عشرے پیچھے جائیں لڑکی کی ١٨/ سال اور لڑکے کی ٢١/ سال سے پہلے کی جانے والی شادی بروقت گردانی جاتی تھی لڑکی کا ٢٢/ اور لڑکے کا ٢٥/ کا ہندسہ عبور کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا پھــــــر غفلت و سرد مہری کا ایسا فتنہ اُٹھا کہ والدین کو ٢٥/ سال سے پہلے تک بیٹی کم عمر ہی لگتی ہے اور ٣٠/ سال سے پہلے بیٹے کی شادی کا خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا حالات اِس حد تک ناگفتہ بہ ہیں کہ اکثر گھروں میں لڑکیوں کی عمریں ٣٠  سے ٣٥ سال کے درمیان ہوچکی ہیں لیکن رشتہ ندارد ! 

اللّٰه عزوجل نے ہر انسان کے اندروں جنسی جذبہ ودیعت کیا اور اُسے نکاح کا پابند بنایا یہ نسل جو دسویں جماعت سے پہلے ہی نکاح کے قابل ہورہی ہے اُس کی گرتی پھسلتی ، سہارے لیتی جوانی کو مخلوط تعلیمی اداروں کی بھٹّی میں مزید تپا کر گریجویشن اور پی ــ ایچ ــ ڈی تک بےنکاح بےمہار چھوڑا جارہا ہے . 

اِس فحش مغربی کلچر ، میڈیائی عریانیت زدہ دجّالی فتنوں کے دور میں جہاں ماحول جنسی ترغیبات سے دہک رہا ہے اور بےحیائی کے شعلوں سے بھڑک رہا ہے نتیجتاٙٙ " سیکس ایجوکیشن " کو تعلیم کا لازمہ قرار دینے کی دہائی دینی پڑگئی اُس پر کجا بےراہ روی و بدکاری کے وسائل و مواقع اس درجے دستیاب ہیں کہ بس ایک فون کلک کی مار ہیں ایسے میں ٣٠/ سال تک آپ کی اولاد کا عفیف یا عفیفہ رہنا اگر ناممکن نہیں تو یقیناٙٙ مشکل ترین کام ہے ـــ

١- یا تو وہ گناہ سے خود کو بچا کر اُسی کے بارے میں سوچ سوچ کر نفسیاتی مریض بن جائیں گے .

٢- یا گناہوں کی اندھی وادی میں بھٹک کر ہوس خوردہ جنسی مریض ، انفرادی و معاشرتی اعتبار سے ناکارہ ، دنیا و آخرت میں خسارہ اُٹھانے والے بن جائیں گے .

ابن عبّاسؓ فرماتے ہیں : 

" من رزقه الله ولدا فليحسن اسمه و تاديبه ، فاذا بلغ فليزوجه " [ کتاب العيال رقم : ١٨٧ ]​

" جس کو اللّٰه بچّہ دے وہ اپنے بچّے کا اچھا نام رکھے ، اچھی طرح ادب سکھائے پھر جب وہ بالغ ہو تو اُس کی شادی کردے " 

والدین کی یہ غفلت کیوں ؟

١- اولاد کی کمائی ::  اگر لڑکی / لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کماو ہو تو والدین اُن پر مکمل مالی انحصار شروع کردیتے ہیں ایسے میں بیٹی کو وداع کرنا مطلب پیسوں کی فراوانی سے ہاتھ دھو بیٹھنا . 

اور بیٹے کی شادی میں عمداٙٙ سُستی کرتے ہیں کہ کہیں بیٹا بہو کی محبّت میں پاگل ہوکر ہاتھ سے نہ نکل جائے .

٢- جھوٹی شان :: والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کی چکّر میں تاخیر پہ تاخیر کرتے چلے جاتے ہیں کہ اتنے زیور نہیں بنائیں گے یا فلاں شادی ہال لاکھوں میں بُک نہیں کریں گے تو ہماری کیا عزّت رہ جائے گی .

٣- لوگوں کا بےجا خوف :: والدین کو یہ خوف بھی ستائے رہتا ہے کہ شعور سنبھالتے ہی بیٹے کی شادی کردیں گے تو لوگ کیا کہیں گے " ابھی تو سیر سپاٹے ، پڑھنے لکھنے قابل بننے کی عمر تھی خواہ مخواہ بیچارے کو شادی کے جنجال میں پھنسا بیٹھے ــ " "جناب کو تو شادی کی بڑی جلدی پڑی ہے " ایسے ہی عزیز و اقارب کے غیراخلاقی ، سطحی طعنوں کا  سوچ کر ہی اولاد کے جذبات کی ناقدری کرتے ہیں ـ

٤- اپنی تربیت کا بھرم :: والدین گھر کو آلاتِ طرب ، ڈش ٹی وی انٹرنیٹ سے مزیّن کرکے بچپن سے ہی میڈیائی چھاپ ان کے معصوم ذہنوں پر منقّش کرتے ہیں پرائیویسی کے نام پر مکمل آزاد خیال بنا کر تربیت تربیت کا غوغا مچاتے ہیں کہ ہمارا خون انتہائی وفا شعار ، فرماں بردار ہے اس کے جذبات تو ہماری اطاعت سے مربوط ہیں اتنا شرمیلا ہے کہ شادی کا لفظ تک اپنے نوکِ زبان پر نہیں لاتا ہائے صدقے ! 

تو جناب والدین ! آپ کی تربیت پر شک نہیں لیکن یہ جو شیطان ہے نا اِس کا آپ کی نوجوان اولاد کے ساتھ آپ سے زیادہ گہرا تعلق ہے یہ خون کی طرح رگوں میں دوڑتا ہے ( صحیح البخاری : ٢٠٣٩  ) اور ربّ ذوالجلال سے وعدہ کرکے آیا ہے کہ آدم کی اولاد کو بےلباس کرکے چھوڑے گا ( الاعراف : ٢٧ ) بس محفوظ جگہ ، چند روپے اور آپ کی نسل کا سفید لباس ہمیشہ کے لئے داغدار لہٰذا اپنی اولاد پر توجّہ دیں اُن کی جان کی ہی نہیں بلکہ بروقت نکاح کے ذریعے اُن کے ایمان اور حیا کی بھی حفاظت کریں وگرنہ آپ کی تربیت کے باندھے ہوئے دیرینہ بند خودبخود ٹوٹتے چلے جائیں گے ــ

" اِس غفلت کا نتیجہ :: 
١- اولاد باغی و نافرمان ہو کر بیوی کو اپنے ماں باپ پر فوقیت دے رہی ہے اور اُن کے واجب حقوق کی پامالی کررہی ہے .

٢- اِس غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے والدین اپنے پوتا پوتی نہیں دیکھ سکتے اوسط عمر ٥٠/ سال اور شادی ٣٥/ سال یعنی بسا اوقات اپنی اولاد کی خوشی دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصتی .

٢- طرفین کے ہمالیائی معیارات :: 

١- حســـــن :: رشتے کے لئے ہر فرد نے اپنا ایک منفرد معیار بنایا ہوا ہے سچ پوچھیں تو یہ مشکلات خود خواتین کی پیدا کردہ ہیں جب بہو اور بھابی دیکھنے جاتی ہیں تو بس اعلیٰ سے اعلیٰ ہی چاہیے اِن کا اگر بس چلے تو لڑکی کے سر کے بال تک گِن لیں ــ

حالانکـــــہ ہمارے معاشرے کی زیادہ تر لڑکیاں مناسب شکل و صورت کی حامل تو ضرور ہوتی ہیں مگر خوبصورتی کی اُن شرائط پر پورا نہیں اُترتیں جو لڑکے اور لڑکے کے اہلِ خانہ نے میڈیا پر آنے والی بےغیرت طوائفوں کے مصنوعی حُسن سے متاثر ہو کر متعیّن کی ہیں اِنہیں اپنے بیٹے کے لئے طلسماتی حُسن والی کوہِ قاف کی پری پیکر شہزادی ہی چاہیے 
جب ظاہر پرستوں نے حُسن کو شرطِ اوّل بنادیا تو لڑکیوں نے بھی دینی و اخلاقی ہر سمت سے خود کو کاٹ کر آئینے کے سامنے لا بٹھایا جبکہ نبی رحمت ﷺ نے عورت کے انتخاب میں دین داری کو معیار بنانے والے کو کامیاب قرار دیا تاکہ رشتہ ازدواج کی بنیاد صالحیت پر ہو . ( صحیح البخاری : ٥٠٩٠ )

وہیں ڈراموں اور ناولوں نے لڑکیوں کا بھی دماغ خراب کرکے رکھ دیا ١٨ سے ٢٠ / سال کی عمر میں اُنہیں عشقیہ ناول کے کسی فرضی کردار کی طرح سجیلا ، کڑیل ، ہینڈسم ، گھبرو جوان ، شہزادہ ہی چاہیے ہوتا ہے جس کی جستجو میں کئی مقبول صورت لڑکوں کو معمولی نقص کے باعث  انکار کردیتی ہیں  کچھ سالوں بعد " حُسن " آفتاب  کی طرح ڈھل جاتا ہے اور سر میں  " چاندی " اُترنے لگتی ہے تب گھر والے جیسے تیسے کسی نتھو خیرے سے پلّو باندھ کر چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں ــ

لہٰذا بہتر یہی ہے کہ دونوں طرف سے سمجھوتا کیا جائے محض خوبصورتی کو ہی مطمح نظر نہ بنائے ورنہ یہ جو ( late marriage ) کا ٹرینڈ چل رہا ہے کچھ بعید نہیں کہ چند سالوں میں کنوارے بوڑھے اور کنواری بوڑھیوں کی کثرت ہوجائے ـ

طرفین کو چاہیے کہ معیارات کے اتنے اونچے شاہی دروازے نہ رکھیں کہ لوگ کھٹکھٹاتے ہوئے ڈریں پھر کل کو خود ہی اپنی ضروریات کے لئے آپ کو سر جُھکا کر نیچے اُترنا پڑے ـ 

٢- جہیــــز:: معاشی بحران کے اِس دور میں بیٹی کے جہیز کی خاطر والدین سالہا سال روکھا سوکھا کھا کر جوڑے جہیز کی تگ و دو میں جٹ جاتے ہیں جہیز کی وجہ سے لمبـے وقت تک شادی کا معاملہ لٹکا رہتا ہے ہندوانہ کلچر پر فریفتہ ، سوئی ہوئی غیرت والوں کی جانب سے کبھی گاڑی و مکان کی فرمائش تو کبھی سینکڑوں افراد کے قافلے کو اعلیٰ معیاری کھانا دینے کی خواہش " دھوم دھام " کے نام پر لاکھوں روپے کے اخراجات کی فکر والدین کو اندر ہی اندر گھلا کر رکھ دیتی ہے اکثر شادیاں سود پر قرض یا اقرباء سے قرض کی فریاد پر ٹکی رہتی ہیں جس کی ادائیگی برسہا برس تک وبالِ جان بن جاتی ہے اور لڑکی کی حالت ایسی ہوجاتی ہے 

کتابِ زیست کا رنگین باب بیت گیا 
جہیز بن نہ سکا اور شباب بیت گیا 

کچھ تو ایسی لڑکیاں بھی ہیں جنہیں اپنا جہیز جوڑا ، زیور ، پارلر ، فنکشنز سب کچھ باپ اور بھائی کی کمر ٹوٹنے تک بہترین چاہیے ہوتے ہیں سسرال میں اونچی شان کی چکّر میں جان بوجھ کر والدین کی سکت کو نظر انداز کرتی ہیں جبکہ اسلام نے نکاح اتنا آسان کیا ہے کہ چند ہزار میں بھی بحسنِ خوبی ہوسکتا ہے لیکن ہم اِس سہل پسندی پر چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ـ

" خیر متاع الدنیا المراة الصالحة " (  صحیح مسلم : ١٤٦٧  )
جو لوگ قیمتی متاع ( بیوی ) سے راضی نہیں ہوتے خاک اُن کا پیٹ بھرے گا لالچ میں عفریت بن کر جلد ہی آپ کی متاعِ بیش بہا اور جمع پونجی دونوں بھی نگل جائیں گے اِن موسمی بھکاریوں کے گلے اپنی بیٹیوں کو کبھی نہ باندھیں یہ رسم از خود اپنی موت آپ مرجائے گی . 

٣- لڑکے کا خود کفیل ہونا:: لڑکی کے والدین لڑکے میں وہ تمام کامیابیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو عموماٙٙ پچاس سال میں حاصل ہوتی ہیں لڑکا لائق فائق خوش شکل ، عالیشان بنگلہ لمبی گاڑی ، اعلیٰ جاب ، اونچی تنخواہ ، بھاری بھرکم بینک بیلنس ، لاکھوں میں حقِ مہر ، مری ہوئی ساس ، شادی شدہ نندیں اور دیگر اشیائے تعیّشات ہوں تاکہ مادّی اعتبار سے اُن کی بیٹی پُر آسائش زندگی گزار سکے 
اِن مطالبات کو صرف متمول خاندان کے چشم و چراغ ہی پورا کرسکتے ہیں ایک عام شخص اس مقام تک پہنچتے پہنچتے جوانی کی عمر سے گزر چکا ہوتا ہے اِن طولانی خواہشوں کی وجہ سے اِن کے معیار اور مرضی کا لڑکا نہیں مل پاتا اسی لئے بڑی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود بِن بیاہی بیٹھی رہتی ہیں ـ

" إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ " ( یونس : ٤٤ )

" حقیقت یہ ہے کہ ﷲ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا، لیکن انسان ہیں جو خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں "

لڑکی کے ولی کو چاہیے کہ دین دار بااخلاق طلبگار مرد ملے تو فوراٙٙ نکاح کردے تاخیر نہ کرے ورنہ زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوجائے گا ( سنن ترمذی : ١١٠٧ ) 

حسن بصری رحمـہ اللّٰه نکاح کے لئے معیار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 

" من يتقِّ الله، فإنَّه إن أحبها أكرمها وإن سَخِطَها لَمْ يَظْلِمها "  ( کتاب العیال : ٢٧٣ )

 اپنی بیٹی کا نکاح اُس سے کرو جو اللّٰه تعالی سے ڈرتا ہو (متّقی ہو) کیونکہ اگر وہ اُسے پسند کرے گا تو اُس کی تکریم کرے گا اور اگر ناراض بھی ہوگا پھر بھی ظلم تو نہیں کرے گا "

کبھی لڑکے کے والدین بھی بہانے تراشنے لگ جاتے ہیں کہ اگر لاکھ سے اوپر تنخواہ ہونے سے پہلے شادی کرلوگے تو آنے والی کو کیسے کھلاو گے ، بڑھتے ہوئے اخراجات کیسے پورے کرو گے ، پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاو ،  اتنا جلدی شادی کرکے خواہ مخواہ ذمہ داریوں میں گِھر جاوگے ، میچور ہوجاو ، پوری زندگی پڑی ہے پھر شادی کا سوچنا ـ

لڑکا بھی خود کفیل بننے کی چکّر میں ایک پاکیزہ ، مستحکم اور پُر لطف زندگی سے محروم ہوجاتا ہے حالانکہ نہایت معمولی  مالی استطاعت بھی ( یعنی بیوی کے نان و نفقہ اور حقِ مہر کا انتظام کرنا ) شادی کے لئے کافی ہے یہاں تک کہ نبی ﷺ نے چند سورتوں کی تعلیم کو عورت کے لئے حقِ مہر قرار دے کر مرد و عورت کو رشتہ ازدواج میں منسلک کردیا تھا ( فتح الباری : ٥٥٣٣ )

چونکہ اللّٰه عزوجل نے انسان کو نکاح کے سبب غنی کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ( النور : ٣٢ ) 

خود رسول الله ﷺ  کا یہ حال تھا کہ اِس حال میں صبح یا شام کرتے کہ کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا .
اِسی طرح آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کی شادی کی جس کے پاس لوہے کی انگوٹھی تک نہ تھی ( صحیح بخاری : ٥١٢١ )

والدین کو چاہیے کہ لڑکے کو تقریباٙٙ ١٥/ سال کی عمر سے ہی گھر کی ذمہ داری کا احساس دلائیں تبھی وہ ٢١/ سال سے پہلے پہلے گھر چلانے اور شادی کرنے کے قابل ہوجائیں گے ــ

رسول ﷺ  اہلِ مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چرایا کرتے تھے ( صحیح البخاری : ٢٢٦٢ ) اسی طرح بغرضِ تجارت اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ تقریباٙٙ بارہ برس کی عمر میں ہی ملکِ شام کا سفر کئے تھے ( الرحیق المختوم صـ : ١٠٧ )

٤- لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم کا بڑھتا ہوا رجحان :: پچھلے کچھ سالوں سے لڑکیوں میں گریجویشن ، ماسٹرس پی ــ ایچ ــ ڈی کا رجحان اِس قدر شدّت اختیار کرگیا کہ پچیس سال تک تو اعلیٰ تعلیم کا سیاپا چلتا رہتا ہے تکمیلِ تعلیم کے بعد نوکری ، آزادی ، خود مختاری کی امنگ دل میں پیدا ہوتی ہے چونکہ لڑکوں کا تعلیمی لیول دن بدن ناقابلِ یقین حد تک گرتا جارہا ہے ایسے میں گھر والوں کو اپنے کاہل کام چور بیٹے کے لئے خوب پڑھی لکھی کماو لڑکی کی تلاش رہتی ہے اِس ڈیمانڈ کی وجہ سے آنے والے رشتوں میں سب سے زیادہ عیب و نقص یہی لڑکیاں نکالتی ہیں اور گھر والے عزیز و اقارب خوب بڑھاوا دیتے ہیں 

ارے تُم تو جاب کرتی ہو ، اپنا کما کھا رہی ہو ، آزاد ہو ، اتنا جلدی شادی کرکے گھر گرہستی میں پھنس جاوگی ، لڑکا تعلیم میں تم سے کم ہے ، معمولی سی ملازمت کرتا ہے ، اس کو تو داڑھی ہے تمہیں سات پردوں میں نہ بٹھادے .

تعلیم ، نوکری ، گھر کی ذمّہ داری چھوٹے بھائی بہنوں کی فیس ، امّاں ابّا کی دوائی کے خول سے باہر نکلیں اپنی ملازمت کے زعم میں ہمالیائی معیارات مقرر نہ کریں ورنہ وقت گزر جائے گا اور صرف پچھتاوا رہ جائے گا .

شریعتِ اسلامیہ نے " أَحْنَاہُ عَلٰی وَلَدٍ فِی صِغَرِہٖ وَأَرْعَاہُ عَلٰی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِہٖ "( صحیح بخاری : ٥٣٦٧  )کا مژدہ سنا کر عورت کو امورِ خانہ داری ، بچوں کی پرورش و نگرانی ، خاوند کی خدمت اور اُس کے خواہشات کی تسکین کا ذمّہ دار قرار دے کر کسبِ معاش کے دوہرے جھمیلوں سے آزاد کردیا .

٥- لڑکیوں کی وجہ سے لڑکے کی شادی میں تاخیر ::  اکثر گھروں میں جسمانی و مالی اعتبار سے قابل لڑکوں کی شادی غیر معیّنہ مدّت کے لئے ملتوی کردی جاتی ہے محض اِس لئے کہ گھر میں ابھی بہنیں موجود ہیں ، بہنیں خواہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو ہر شخص اپنی بہن بیٹی کی شادی کے لئے تو تیار ہے مگر دوسروں کی بیٹیوں کو اپنے گھر لانے تیار نہیں نتیجہ دوسروں کی لڑکیوں کے ساتھ اپنی لڑکیوں کی عمر بھی بلاوجہ ضائع ہوجاتی ہے مجبوراٙٙ وٹّہ سٹّہ (نکاح شغار ) کا ہی آپشن باقی رہتا ہے ــ 

بسا اوقات بڑے بھائی تعلیم ، نوکری یا نکاح سے عدمِ دلچسپی کی بنا پر اتنی تاخیر کرتے ہیں کہ اپنے بعد والے چھوٹے بھائیوں کے لئے رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں بحیثیتِ نوجوان معاشرے کے لئے سب ایک جیسے ہیں بڑے کی ہو یا چھوٹے کی بروقت کسی سے تو شروعات کرنی پڑے گی .

معاشرے میں رائج اِن اسباب کی بنا پر بدقسمتی سے وہ دین دار طبقہ بھی پِس گیا جن کی عفت مآب بیٹیاں اعلیٰ خصائل ، عمدہ عادت و اطوار کی حامل ، سگھڑ سلجھی ہوئیں ، علومِ شریعہ سے آراستہ ہونے کے باوجود بھی محض عام شکل و صورت کی بنا پر اِن مادّیت پرستوں کے معیار پر پورا نہیں اُترتیں اِس لئے کہ دین داری کا راگ الاپنے والے لڑکے والے ایک اصول مقرر کرلیے کہ بھائی ہم جہیز جوڑے کے سخت خلاف ہیں ، شریعت کے پابند ہیں سنّت کے مطابق سادی شادی کریں گے بس ہماری ایک ہی requirement ہے لڑکی بہت خوبصورت ہونی چاہیے ـــ یوں اِن لڑکیوں کی عمریں پچیس تو کبھی تیس کا ہندسہ چھونے لگتی ہیں اِن پریشاں حال بہنوں کے لئے صبر و ثبات ذکر و استغفار کی تلقین کرتی ہوں

 " أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا "( سنن الترمذی : ٢٥١٦ ) 

یاد رکھو ! اللّٰه کی مدد و نصرت صبر کے ساتھ ہے ، اور ہر تکلیف و مصیبت کے بعد کشادگی ہے ہر تنگی و مشکل کے بعد آسانی ہے " 

تاخیرِ نکاح کی قباحتیں :: 

١- بلند و بالا معیارات نے حیا و عفّت کا گراف تحت الثریٰ پہنچا دیا .

٢- گرل فرینڈ کلچر ہر مخلوط تعلیمی ادارے کا فیشن بن گیا .

٣- مسلمان لڑکے لڑکیاں والدین کی طرف سے تاخیر کی بنا پر برضا و رغبت اپنے کلاس فیلو کافر آشناوں کے ساتھ شادیاں رچا رہے ہیں .
 
٤- مسلم سماج میں بدعقیدگی پھنکار رہی ہے " ڈوبتے کو تنکے کا سہارا " کم علم طبقہ تاخیر سے نکاح کی وجہ جادو ٹونا سمجھ کر پاکھنڈی عامل  باباوں کے دربار جا کر ایمان و حیا سے ہاتھ دھو رہا ہے .

٥- نوجوانوں میں خود لذّتی و ہم جنس پرستی کی لعنتیں زور پکڑ رہی ہیں .

٦- نوجوان سستا فحش مواد دیکھ پڑھ کر اپنا آپا کھو رہے ہیں جس سے بےراہ روی اور زنا بالجبر کے جرائم کثرت سے بڑھ رہے ہیں .

٧- طرفین کے سادگی ، دینداری کو ترجیحات میں شامل نہ کرنے کی بنا پر طلاق کی شرح میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے . 

ہمیـں اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا دنیا میں رہ کر دنیا والوں سے کام چلانا پڑے گا ہمارے بچّوں کے لئے آسمان سے حوریں یا فرشتے نہیں اُتریں گے حلال راستے پر پڑے معیارات کے یہ کڑے پہرے نکال پھینکنے ہوں گے تبھی ایک صالح پاکباز معاشرہ تشکیل پائے گا -

دعا ہے یا رب ! امّتِ مسلمہ کو آسان اور بروقت نکاح کی توفیق دے آمیـن
​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​══════════════𖣔
💐

Post a Comment

0 Comments