111 Chapter - Seerat-un-Nabi
Biography of Prophet Muhammad (PBUH)
Life of Muhammad (PBUH)
سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ
عنوان: اسی کے پاس سب کو جاناہے
باہر صحابہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔حضرت عمر رضی الله عنہ کی حالت اتنی پریشان کن تھی کہ مسجد نبوی کے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے،اور لوگوں کو مخاطب ہوکر کہنے لگے:
"اللّٰہ کی قسم!رسول اللّٰہ کا انتقال نہیں ہوا...رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک وہ منافقوں کے ہاتھ پیر نہیں توڑ دیں گے۔اور اگر کسی نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا... بعض منافق یہ کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں ،حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ اسی طرح اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام گئے تھے اور پھر چالیس راتوں کے بعد اپنی قوم میں واپس آگئے تھے،جب کہ لوگ ان کے بارے میں کہنے لگے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی ہے۔اللّٰہ کی قسم!رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بھی اسی طرح واپس تشریف لائیں گے جیسے موسیٰ علیہ السلام لوٹ آئے تھے...پھر ان لوگوں کے ہاتھ پیر کٹوائیں گے۔"
حضرت عمر رضی الله عنہ غم کی زیادتی کی وجہ سے ابھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ تشریف لائے اور منبر پر چڑھے۔انہوں نے بلند آواز میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"لوگو!جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا،وہ جان لے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔"
یہ کہہ کر انہوں نے سورۃ آل عمران کی آیت 144 تلاوت فرمائی۔اس کا مفہوم یہ ہے:
"اور محمد رسول ہی تو ہیں ۔ان سے پہلے اور بھی بہت رسول گذر چکے ہیں ۔سو اگر ان کا انتقال ہوجائے یا وہ شہید ہوجائے تو کیا تم لوگ الٹے پھر جاؤ گے...اور جو شخص الٹے پیروں پھر بھی جائے گا تو اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور اللّٰہ تعالیٰ جلد ہی حق شناس لوگوں کو بدلہ دے گا۔"
حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں ۔
"یہ آیت سن کر مجھے لگا جیسے میں نے آج سے پہلے یہ آیت سنی ہی نہیں تھی۔"
اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا:
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ،صَلَوَٰتٌۭ وَسَلَامٌ عَلَى رْسَولِہ صلی الله علیہ وسلم
(بے شک ہم سب اللّٰہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر درود و سلام ہو۔)
حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے قرآن کریم کی اس آیت سے سب کے لیے موت کا برحق ہونا ثابت فرمایا اور فرمایا:
"اللّٰہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔
"آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں ( عام مخلوق کو)بھی مرنا ہے۔"( سورۃ الزمر : آیت 30)
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ پر تمام مسلمانوں نے بیعت کرلی۔اس کے بعد لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔
(اور یہ کس قدر حیرت انگیز اتفاق ہے کہ یہ قسط ربیع الاول کی انہی تاریخوں میں شائع ہورہی ہے...جن میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی،یہ قدرتی ترتیب اسی طرح بن گئی ورنہ میرا ایسا کوئی باقاعدہ ارادہ نہ تھا۔)
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو غسل دیا گیا۔ غسل حضرت علی،حضرت عباس اور ان کے بیٹوں فضل اور قثم رضی الله عنہم نے دیا۔حضرت فضل اور حضرت اسامہ رضی الله عنھما غسل دینے والوں کو پانی دے رہے تھے۔غسل کے وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی قمیص نہیں اتاری گئی۔غسل کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو تین سفید کپڑوں میں کفن کا دیا گیا، عود وغیرہ کی دھونی دی گئی۔اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو چار پائی پر لٹاکر ڈھانپ دیا گیا۔
نماز جنازہ کی کسی نے امامت نہیں کی۔سب نے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھی ۔یعنی جتنے لوگ حجرہ مبارک میں آسکتے تھے،بس اتنی تعداد میں داخل ہوکر نماز ادا کرتے اور باہر آجاتے،پھر دوسرے صحابہ اندر جاکر نماز ادا کرتے۔
حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر رضی الله عنہ چند دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ حجرے میں داخل ہوئے تو ان الفاظ میں سلام کیا۔
پھر تمام مہاجرین اور انصار نےبھی اسی طرح سلام کیا۔نماز جنازہ میں سب نے چار تکبیرات کہیں ۔
انصاری حضرات سقیفہ بنی ساعدہ( ایک جگہ کا نام)میں جمع ہورہے تھے تاکہ خلافت کا فیصلہ کیا جائے۔کسی نے اس بات کی خبر حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنھما کو دی۔یہ دونوں حضرات فوراً وہاں پہنچے،اور خلافت کے بارے میں ارشاد نبوی سنایا۔
خلافت کا مسئلہ طے ہوگیا تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو دفن کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا...سوال یہ کیا گیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟اس موقع پر بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ آگے آئے اور فرمایا:
"آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں وفات ہوئی ہے...
میرے پاس ایک حدیث ہے... میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کی روح اسی جگہ قبض کی جاتی ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہ ہوتی ہے۔
چنانچہ یہ بات طے ہوگئی کہ آنحضرت ﷺ کو اس جگہ دفن کیا جائے۔
اب یہ سوال اٹھا کہ قبر کیسی بنائی جائے،بغلی بنائی جائے یا شق کی۔۔۔اس وقت مدینہ منورہ میں حضرت ابوطلحۃ بن زید بن سہل رضی اللہ عنہ بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح شق کی قبر کھودتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ان دونوں کو بلالاؤ۔۔۔ان میں سے جو پہلے پہنچے گا، اسی سے قبر بنوالی جائے گی۔
ان کی طرف آدمی بھیجنے کے ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی:
اے اللہ!اپنے رسول کے لئے خیر ظاہر فرما۔
حضرتابوطلحہ رضی اللہ عنہ پہلے آئے،چنانچہ بغلی قبر تیار ہوئی۔ایک حدیث کے مطابق آنحضرت ﷺ نے بھی بغلی قبر ہی کا حکم فرمایا تھا۔ حضرت عباس،حضرت علی،حضرت فضل،حضرت قثم اور حضرت شقران رضی اللہ عنہم نے آنحضرت ﷺ کو قبر مبارک میں اتارا۔
حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے قبر میں ایک سرخ رنگ کا کپڑا بچھایا۔یہ وہی سرخ کپڑا تھا جو آنحضرت ﷺ سفر پر جاتے وقت اونٹ کے پالان پر بچھاتے تھے۔یہ کپڑا اس لئے بچھایا گیا کہ وہاں نمی تھی۔اس وقت حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے:
خدا کی قسم!آپ کے بعد اس کپڑے کو کوئی نہیں پہن سکے گا۔
آنحضرت ﷺ کی تدفین منگل اور بدھ کی درمیانی رات میں ہوئی۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اس روز ہم سب ازواج ایک جگہ جمع ہوکر رورہی تھیں ۔ہم میں سے کوئی سو نہ سکا۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان دی۔ اذان میں آنحضرت ﷺ کا نام مبارک آیا تو سارا مدینہ رونے لگا۔لوگ اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں ۔اس سے بڑا صدمہ ان پر کبھی نہیں گذرا تھا اور نہ آئندہ کبھی کسی پر گذرے گا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
تمہارے دلوں نے کیسے برداشت کرلیا کہ تم رسول اللہ ﷺ پر مٹی ڈالو؟۔
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ہاں !لیکن اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پھیرنے والا کوئی نہیں ۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آدمی اسی مٹی میں دفن ہوتا ہے جہاں سے اس کا خمیر اٹھایاجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ ،حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اور حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر رضی اللہ عنہما ایک ہی جگہ کی مٹی سے تخلیق کئے گئے تھے۔
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی اونٹنی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور بھوکی پیاسی مر گئی۔
علمائےاسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس جگہ آنحضرت ﷺ دفن ہیں ،وہ جگہ روئے زمین میں تمام مقامات سے افضل ہے۔
آنحضرت ﷺ واقعۂ فیل والے سال میں پیدا ہوئے۔۔۔یعنی جس سال ابرہہ بادشاہ نے کعبہ پرچڑھائی کی تھی۔اس واقعہ کے چالیس یا پچاس دن بعد آپ ﷺ کی ولادت باسعادت صبح طلوع فجر کے وقت ہوئی۔وہ پیر کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اس روز معتبر قول کے مطابق 9 تاریخ تھی۔ آنحضرت ﷺ کی وفات بھی ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور اس روز بھی ربیع الاول کی نو یا بارہ تاریخ تھی۔
اے اللہ درود وسلام ہو اس ذات پر کہ جس نے کفر وشرک کے اندھیروں میں شمع ہدایت روشن کی اور جن کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔وہ تیرے بندے اور رسول اور ہمارے سردار حضرت محمد ﷺ کی ذات کامل ہے۔ میدان حشر میں ہمیں ان کے گروہ میں شامل فرما اور ہمیں آپ ﷺ کی سنت وحدیث کے خادموں میں داخل فرما۔آمین۔ سوائے اللہ رب العزت کی ذات عظیم کے کسی کو دوام حاصل نہیں ۔
وصلی اللہ علی النبی الامی وعلی الہ واصحابہ اجمعین۔
۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ اس قسط کے ساتھ ہی سیرت النبی قدم بہ قدم کا یہ سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔اسے جس قدر پسند کیا گیا،اس پر اللہ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے، اس میں تقریبا دو سال لگے۔۔۔آنحضرت ﷺ کی زندگی مبارک کے ان گنت پہلو پھر بھی اس میں شامل نہ ہوسکے۔۔۔۔اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔ دنیا کے تمام انسان تمام عمر بھی آنحضرت ﷺ کی زندگی مبارک پر لکھتے رہیں ،تب بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔۔۔موجودہ حالات کا تقاضا ہےکہ حضور ﷺ کی سیرت کو عام کیا جائے، قول سے، عمل سے یا جس طرح بھی بن پڑے یہ کام ضرور کیا جائے۔ اس وقت انسانیت کو کسی آئیڈیل کی تلاش ہے اور وہ حضور ﷺ کی ہی ذات ہوسکتی ہے۔ بقول ذکی کیفی۔۔۔
تنگ آجائے گی خود اپنے چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی
#muhammad #prophet #muhammadali #prophetmuhammad #prophetmuhammadﷺ #mobiography #biography #muhammadﷺ #muhammadiyah #autobiography #muhammadsaw #prophetic #prophets #12ozprophet #prophetsandpoets #ustadzmuhammadnuzuldzikri #nabimuhammadsaw #muhammadismyhero #islam #islamic #sunnah #muslim #muslimah #dua #alhamdulillah #islamicreminder #life #peace #quotes #loveislam
0 Comments