Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سوال _محرم الحرام کی اہمیت و فضیلت کی کیا وجہ ہے؟


✍🏻سوال _محرم الحرام کی اہمیت و فضیلت کی کیا وجہ ہے؟ 
کیا اس مہینے کی خاصیت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے باعث ہے؟
جواب۔۔
الحمدللہ۔۔!! 
محرم الحرام ہجری تقویم کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد نبی اکرمﷺ کے واقعہ ہجرت پر ہے۔گویا مسلمانوں کے نئے سال کی ابتدا محرم کے ساتھ ہوتی ہے۔ ماہِ محرم کے جو فضائل و مناقب صحیح احادیث سے ثابت ہیں، ان کی تفصیل آئندہ  سلسلوں میں رقم کی جائے گی اور اس کے ساتھ ان بدعات و خرافات سے بھی پردہ اُٹھایا جائے گا جنہیں اسلام کا لبادہ اوڑھا کر دین حق کا حصہ بنانے کی مذموم کوششیں کی گئی ہیں،یہاں پر ہم صرف محرم الحرام کی خاصیت کے بارے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس مہینے کی خاص فضیلت کیا ہے؟
محرم: حرمت و تعظیم والامہینہ ہے
📚قرآن مجید میں ہے کہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡهَاۤ اَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ‌ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ  فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِيۡهِنَّ اَنۡفُسَكُمۡ‌ ؕ وَقَاتِلُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ كَآفَّةً‌  ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ
بیشک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ بیشک اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔
تفسیر:
فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ :
اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مہینوں میں بیشک اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہو، بلکہ کچھ مقامات اور اوقات جو زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، مثلاً مکہ، مدینہ، بیت المقدس، اللہ تعالیٰ کی مساجد، ماہ رمضان، لیلۃ القدر، حرمت والے ماہ وغیرہ،
ان میں نیکی کی تاکید زیادہ ہے،
جیسا کہ فرمایا :
(حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى)
[ البقرۃ : ٢٣٨ ] ” سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔ “
اسی طرح ان حرمت والے مہینوں میں ظلم سے باز رہنے کی تاکید بھی زیادہ ہے،۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مہینوں کو آگے پیچھے کر کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔..!!
قمری مہینوں میں سے چار ماہ کو دین ابراہیمی میں حرمت والے مہینے قرار دیا گیا تھا، جن میں ہر قسم کی لڑائی حرام تھی، حتیٰ کہ اگر کوئی ان دنوں میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو قتل نہ کرتا، جن میں سے تین مسلسل تھے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم، تاکہ حج کے ایام اور ان سے ایک ماہ پہلے اور ایک ماہ بعد پورے عرب میں لوگ حج کے لیے بےخوف اور پر امن ہو کر حج کرسکیں اور رجب کا مہینا الگ رکھا، تاکہ لوگ امن کے ساتھ عمرہ کے لیے آنے جانے کا سفر کرسکیں
(تفسیر القرآن - سورۃ 9 - التوبة - آیت 36۔')
یعنی ابتداے آفرینش ہی سے اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن میں چارپ کو خصوصی ادب و احترام اورعزت و تکریم سے نوازا گیا۔ اور انکی فضیلت یہ ہے کہ ان مہینوں میں ظلم سے باز رہنے کا خاص حکم ہے لیکن اگر کافر،مشرک تم سے ان مہینوں میں لڑائی کریں تو پھر تم بھی جواباً لڑائی کر سکتے ہو
یہ چار مہینے کون سے ہیں، ان کی تفصیل صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے
📚صحیح بخاری
کتاب: تفاسیر کا بیان
باب: باب: آیت کی تفسیر ”بیشک مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک کتاب الٰہی میں بارہ ہی مہینے ہیں، جس روز سے کہ اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں“ «قیم» بمعنی «القائم» جس کے معنی درست اور سیدھے کے ہیں۔۔
حدیث نمبر: 4662
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏السَّنَةُ:‏‏‏‏ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، ‏‏‏‏‏‏مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ‏‏‏‏‏‏ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ:‏‏‏‏ ذُو الْقَعْدَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَذُو الْحِجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُحَرَّمُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجَبُ، ‏‏‏‏‏‏مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ.
ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے، ان سے ان کے والد ابوبکرہ نفیع بن حارث ؓ نے کہ  
رسول اللہ  ﷺ  نے  (حجۃ الوداع کے خطبے میں)  
فرمایا کہ دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آگیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے،
مذکورہ حدیث میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:
ایک تو یہ کہ محرم بھی حرمت والے مہینوں میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ زمانہ اپنی سابقہ حالت و ہیئت پر واپس لوٹ آیا ہے
📚اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ دورِ جاہلیت میں بھی لوگ حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے اور جنگ و جدل، قتل و غارت گری اور خون ریزی وغیرہ سے اجتناب کرتے تھے۔
البتہ اگر کبھی حرمت والے مہینے میں انہیں جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ اپنے طور پر مہینوں کی تقدیم و تاخیر کرلیتے۔ اگر بالفرض محرم کا مہینہ ہے تو اسے صفر قرار دے لیتے اور (محرم میں اپنے مقصد پورے کرنے کے بعد) اگلے ماہ یعنی صفر کو محرم قرار دے کر لڑائی جھگڑے موقوف کردیتے۔ قرآن مجید نے اس عمل کو برا قرار دے کر زیادتِ کفر سے تعبیر فرمایا۔
(تفسیر سورہ التوبہ:آئیت نمبر_37)
جس سال نبی اکرم ﷺ نے حج فرمایا، اس سال ذوالحجہ کا مہینہ قدرتی طور پراپنی اصلی حالت پر تھا۔ اس لئے آپؐ نے مہینوں کے اَدل بدل کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے۔ یعنی اب اس کے بعد مہینوں کی وہی ترتیب جاری رہے گی جسے اللہ تعالیٰ نے ابتداے آفرینش سے جاری فرما رکھا ہے۔
دونوں باتوں کا حاصل یہی ہے کہ محرم ادب و احترام والامہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ادب و احترام والا بنایا جبکہ اس کے آخری رسولؐ نے اس کی حرمت کو جاری رکھا اور عرب کے جاہل بھی اس کا اس قدر احترام کرتے کہ احترام کے منافی کسی عمل کے جواز کے لئے کم از کم اتنا حیلہ ضرور کر لیتے کہ فرضی طور پر حرمت والے مہینے کو کسی دوسرے غیر حرمت والے مہینے سے بدل لیتے،
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے یہ بات از خود سمجھ آجاتی ہے کہ ماہِ محرم کی حرمت و تعظیم کا حضرت حسین کے واقعہ شہادت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں جو اس مہینے کی حرمت کی کڑیاں واقعہ کربلا اور شہادتِ حسین ؓسے ملاتے ہیں
اس لئے کہ ماہِ محرم کی حرمت تو اس دن سے قائم ہے جس دن سے یہ کائنات بنی ہے،جیسا کہ
 سورئہ توبہ کی گذشتہ آیت: 
💫﴿يَومَ خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ﴾ سے واضح ہے
یہ بات سچ ہے کہ کربلا کا واقعہ ایک دردناک سانحہ تھا،اور  اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ہوئی، جسکی تکلیف ہر مسلمان کو ہے اور جو یہ تکلیف محسوس نہیں کرتا اسکا دل آل نبی کی محبت سے خالی ہے اور جسکے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یا آپکے آل کی یا آپکے صحابہ کی محبت نہیں وہ اپنے ایمان کی فکر کرے
لیکن اس واقعے کا محرم کی حرمت یا دین اسلام کی سر بلندی سے  کوئی تعلق نہیں،نہ ہی اس میں دین کی حفاظت کا کوئی مسئلہ درپیش تھا اور نہ ہی یہ کوئی حق و باطل کا معرکہ تھا،بلکہ اوّل تو دین اسلام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ شہادت سے کئی عشروں پہلے ہی نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں مکمل ہوچکا تھا
اور دوم یہ کہ دین کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اُٹھا رکھا ہے،..!
📚جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: 
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ٩﴾... سورة الحجر"
معلوم ہوا کہ یہ تصور جہالت و لاعلمی پر مبنی ہے کہ ماہِ محرم کا ادب و احترام شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کا مرہونِ منت سمجھا جائے، بلکہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے پہلے بھی بہت سے صحابہ کرام شہید ہوئے، بعض کے مطابق اسی ماہ محرم کی یکم تاریخ کو اور اکثریت کے مطابق 26,27 ذوالحجہ کو عمر فاروقؓ جیسے خلیفہ راشد کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آچکا تھا۔اور اسی طرح ان سے پہلے عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت بہت سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کی شہادت بھی مختلف ادوار میں بہت تکلیف دہ تھی،  مگر اس وقت سے آج تک کبھی حضرت عمرؓ یا حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنھما کا واقعہ شہادت اس انداز سے پیش نہیں کیا گیا۔ اور نا انکی شہادت کو کسی مہینے کی حرمت کا سبب سمجھا گیا،لہذا یہ دین سے نا واقف لوگوں کا کام ہے جو صحابہ کرام جیسی عظیم ہستیوں کے ناموں اور حرمت والے مہینوں کو اپنی نام نہاد بدعات و خرافات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں
🤲🏻اللہ پاک ہم سب کو اس سے محفوظ رکھیں آمین یا رب العالمین...!
(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
─━•<☆⊰✿🌸✿⊱☆>•━─ 

Post a Comment

0 Comments