❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا.........
🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻
قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔㊿
🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️
گزشتہ صفحات میں مذکور حالات کو پیش نظر رکھ کر اب مدنی زندگی کا سن وار تفصیلی جائزہ ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی زندگی کس طرح گذاری لیکن یہ ضرور پیش نظر رہے کہ مدینہ منورہ کی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے از ابتدا تا انتہا جو کچھ کیا , چاہے مدافعت کی شکل میں یا پیشقدمی کی شکل میں یا تادیبی شکل میں کیا , اس کی غایت صرف یہ تھی کہ لوگ عالمی مشن کی عالمی دعوت کی تبلیغ کی راہ میں مزاحمت سے باز آجائیں..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پالیسی ہرگز یہ نہیں تھی کہ قریش کا اور ان جیسے دشمنان اسلام کا استیصال کردیا جائے یا ان کو تباہ و برباد کردیا جائے کیونکہ یہ رحمتہ اللعالمین کے مزاج کے منافی تھا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہمیشہ ان کی ہدایت رہتی تھی , ان کی تباہی نہیں رہتی تھی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری مدنی زندگی میں خود نہ کوئی ایسا فیصلہ کیا نہ ایسا منصوبہ بنایا نہ ایسا عملی اقدام کیا جس کی بنیاد کسی جماعت کے استیصال اور بالکلیہ تباہ و برباد کردینے پر ہو یا جبراً اسلام پر ہو..
کفار عرب اور قریش کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاست یہ تھی کہ ان کو محفوظ رکھ کر ان کا ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ اسلام کی مزاحمت سے باز آجائیں یا مصالحت کرلیں یا اسلام قبول کرلیں.. وہ سارے غزوات اور سریئے جو سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں , ان سب کی بنیاد اس پر تھی کہ خبر رساں جماعت اور جاسوس سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کی اطلاع ملتی کہ.....
۱) فلاں جگہ ، فلاں جماعت یا فلاں قبیلہ اسلام دشمنی میں یہ منصوبہ بنا رہا ہے..
۲) یا قریش کا فلاں قبیلہ فلاں راہ سے فلاں روز گذرے گا..
۳) یا فلاں قبیلہ یا جماعت حملہ یا غارت گری کا ارادہ کر چکی ہے..
۴) یا مسلمانوں یا اسلام کے استیصال کی خاطر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے کوئی جماعت فوج لے کر آرہی ہے تو حسب حال ان کی مدافعت ، ان کی تادیب ، ان کے منصوبہ میں ناکام کرنے کے لئے فوجی دستہ بھیجے جاتے تھے..
کبھی کبھی مخالفین اسلام کی نقل و حرکت کی تفتیش کے لئے بھی سریئے بھیجنے پڑتے تھے لیکن قریش اور قبائل عرب مسلمانوں کا اور اسلام کو استیصال کرنے کے لئے چڑھائی کرکے حملہ آور ہوتے تھے تو چار و ناچار مجبور ہوکر مردانہ وار مدافعت کے لئے سر اور دھڑ کی بازی ﷲ کے بھروسہ پر لگا دیتے تھے.. (پیغمبر عالم)
مدنی عہد کو تین مرحلو ں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے..
(1) اسلامی معاشرے کی تاسیس اور اسلامی دعوت کے قابو پانے کا مرحلہ.. اس میں فتنے اور اضطرابات بر پا کیے گئے.. اندر سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور باہر سے دشمنوں نے مدینہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور دعوت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لیے چڑھائیاں کیں.. یہ مرحلہ مسلمانوں کے غلبے اور صورت حال پر ان کے قابو پانے کی صورت میں صلح حدیبیہ ذی قعدہ 6ھ پر ختم ہوجاتا ہے..
(2) دوسرا مرحلہ جس میں بت پرست قیادت کے ساتھ صلح ہوئی.. شاہان عالم کو اسلام کی دعوت دی گئی اور سازشوں کے اطراف کا خاتمہ کیا گیا.. یہ مرحلہ فتح مکہ رمضان 8 ھ پر منتہی ہوتا ہے..
(3) تیسرا مرحلہ جس میں خلقت اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئی.. یہی مرحلہ مدینہ میں قوموں اور قبیلوں کے وفود کی آمد کا بھی مرحلہ ہے.. یہ مرحلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے اخیر یعنی ربیع الاول 11 ھ تک کو محیط ہے..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
ہجرت کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ فتنے اور تمسخر کا نشانہ بننے سے نجات حاصل کر لی جائے بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل تھا کہ ایک پُرامن علاقے کے اندر ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں تعاون کیا جائے.. اسی لیے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض قرار پایا تھا کہ اس وطنِ جدید کی تعمیر میں حصہ لے اور اس کی پختگی ، حفاظت اور رفعتِ شان میں اپنی کوشش صرف کرے..
یہ بات تو قطعی طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اس معاشرے کی تشکیل کے امام ، قائد اور رہنما تھے اور کسی نزاع کے بغیر سارے معالات کی باگ ڈور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ہاتھ میں تھی.. مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین طرح کے قوموں سے سابقہ درپیش تھا جن میں سے ہر ایک کے حالات دوسرے سے بالکل جداگانہ تھے اور ہر ایک قوم کے تعلق سے کچھ خصوصی مسائل تھے جو دوسری قوموں کے مسائل سے مختلف تھے.. یہ تینوں اقوام حسبِ ذیل تھیں..
1.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منتخب اور ممتاز جماعت..
2.. مدینے کے قدیم اور اصلی قبائل سے تعلق رکھنے والے مشرکین جو اب تک ایمان نہیں لائے تھے..
3.. یہود..
الف..... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن مسائل کا سامنا تھا ان کی توضیح یہ ہے کہ ان کے لیے مدینے کے حالات مکے کے حالات سے قطعی طور پر مختلف تھے.. مکے میں اگرچہ ان کا کلمہ ایک تھا اور ان کے مقاصد بھی ایک تھے مگر وہ خود مختلف گھرانوں میں بکھر ے ہوئے تھے اور مجبور و مقہور اور کمزور تھے.. ان کے ہاتھ میں کسی طرح کا کوئی اختیار نہ تھا.. سارے اختیار دشمنان دین کے ہاتھوں میں تھے اور دنیا کا کوئی بھی انسانی معاشرہ جن اجزاء اور لوازمات سے قائم ہوتا ہے.. مَکہ کے مسلمانوں کے پاس وہ اجزاء سرے سے تھے ہی نہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کرسکیں.. اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سورتوں میں صرف اسلامی مبادیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور صرف ایسے احکامات نازل کیے گئے ہیں جن پر ہر آدمی تنہا عمل کرسکتا ہے.. اس کے علاوہ نیکی بھلائی اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے اور رَذِیل وذلیل کاموں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے..
اس کے برخلاف مدینے میں مسلمانوں کی زمامِ کار پہلے ہی دن سے خود ان کے اپنے ہاتھ میں تھی.. ان پر کسی دوسرے کا تسلّط نہ تھا.. اس لیے اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان تہذیب وعمرانیات ، معاشیات واقتصادیات ، سیاست وحکومت اور صلح وجنگ کے مسائل کا سامنا کریں اور ان کے لیے حلال وحرام اور عبادات واخلاق وغیرہ مسائل زندگی کی بھر پور تنقیح کی جائے..
وقت آگیا تھا کہ مسلمان ایک نیا معاشرہ یعنی اسلامی معاشرہ تشکیل کریں جو زندگی کے تمام مرحلوں میں جاہلی معاشرے سے مختلف اور عالمِ انسانی کے اندرموجود کسی بھی دوسرے معاشرے سے ممتاز ہو اور اس دعوت اسلامی کا نمائندہ ہو جس کی راہ میں مسلمانوں نے تیرہ سال تک طرح طرح کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں..
ظاہر ہے اس طرح کے کسی معاشرے کی تشکیل ایک دن ، ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے تاکہ اس میں آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ احکام صادر کیے جائیں اور قانون سازی کا کام مشق وتربیت اور عملی نفاذ کے ساتھ ساتھ مکمل کیا جائے.. لیکن اس کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل بھی تھے جو فوری توجہ کے طالب تھے جن کی مختصرکیفیت یہ ہے..
مسلمانوں کی جماعت میں دو طرح کے لوگ تھے.. ایک وہ جو خود اپنی زمین ، اپنے مکان اور اپنے اموال کے اندر رہ رہے تھے اور اس بارے میں ان کو اس سے زیادہ فکرنہ تھی جتنی کسی آدمی کو اپنے اہل وعیال میں امن وسکون کے ساتھ رہتے ہوئے کرنی پڑتی ہے.. یہ انصار کا گروہ تھا اور ان میں پشت ہا پشت سے باہم بڑی مستحکم عداوتیں اور نفر تیں چلی آرہی تھیں..
ان کے پہلو بہ پہلو دوسرا گروہ مہاجرین کا تھا جو ان ساری سہولتوں سے محروم تھا اور لٹ پٹ کر کسی نہ کسی طرح تن بہ تقدیر مدینہ پہنچ گیا تھا.. ان کے پاس نہ تو رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تھا نہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی کام اور نہ سرے سے کسی قسم کا کوئی مال جس پر ان کی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہوسکے.. پھر ان پناہ گیر مہاجرین کی تعداد کوئی معمولی بھی نہ تھی اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا تھا کیونکہ اعلان کردیا گیا تھا جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے وہ ہجرت کرکے مدینہ آجائے.. اور معلوم ہے کہ مدینے میں نہ کوئی بڑی دولت تھی نہ آمدنی کے ذرائع و وسائل.. چنانچہ مدینے کا اقتصادی توازن بگڑ گیا اور اسی تنگی ترشی میں اسلام دشمن طاقتوں نے بھی مدینے کا تقریباً اقتصادی بائیکاٹ کردیا جس سے درآمدات بند ہوگئیں اور حالات انتہائی سنگین ہوگئے..
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌴================🌴
❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..
🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ
👉🏻Forward To All Groups Friends And Family Members For Sadq e Jaria
0 Comments