❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا.........
🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻
قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ➊➎
🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️
دوسری قوم (یعنی مدینے کے اصل مشرک باشندے) کا حال یہ تھا کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی.. کچھ مشرکین شک وشبہے میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّد محسوس کررہے تھے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت اور داؤ گھات نہیں رکھ رہے تھے.. اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلمان ہوگئے اور خالص اور پکے مسلمان ہوئے..
اس کے برخلاف کچھ مشرکین ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ وعداوت چھپائے ہوئے تھے لیکن انہیں مَدّمقابل آنے کی جرأت نہ تھی بلکہ حالات کے پیشِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت وخلوص کے اظہار پر مجبور تھے.. ان میں سرِفہرست عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا..
یہ وہ شخص ہے جس کو جنگ ِ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس وخزرج نے اتفاق کرلیا تھا حالانکہ اس سے قبل دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے لیکن اب اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیا جارہا تھا تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کردیا جائے.. یعنی یہ شخص مدینے کا بادشاہ ہونے ہی والا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد آمد ہوگئی اور لوگوں کا رُخ اس کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہوگیا.. اِس لیے اسے احساس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے اس کی بادشاہت چھینی ہے لہٰذا وہ اپنے نہاں خانہ ٔ دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سخت عداوت چھپائے ہوئے تھا..
اس کے باوجود جب اس نے جنگ ِ بدر کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیاوی فوائد سے بھی محروم ہوا چاہتا ہے تو اس نے بظاہر قبول اسلام کا اعلان کردیا لیکن وہ اب بھی درپردہ کا فر ہی تھا.. اسی لیے جب بھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا.. اس کے ساتھ عموماً وہ رؤساء تھے جو اس کی بادشاہت کے زیرِ سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے مگر اب انہیں اس سے محروم ہوجانا پڑا تھا.. یہ لوگ اس شخص کے شریکِ کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے بسا اوقات نوجوانوں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلۂ کار بنا لیتے تھے..
تیسری قوم یہود تھی.. جیسا کہ گزرچکا ہے یہ لوگ اشوری اور رومی ظلم وجبر سے بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوگئے تھے.. یہ درحقیقت عبرانی تھے لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی وضع قطع ، زبان اور تہذیب وغیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی.. یہاں تک کہ ان کے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہوگئے تھے اور ان کے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہوگئے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے بلکہ اپنی اسرائیلی یہودی قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے.. حتیٰ کہ انہیں اُمیّ کہتے تھے جس کا مطلب ان کے نزدیک 'بدھو ، وحشی ، رذیل ، پسماندہ اور اچھوت' تھا.. ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے مباح ہے.. جیسے چاہیں کھائیں.. چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے..
قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ O
''انہوں نے کہا ہم پر اُمیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں..'' (۳: ۷۵)
یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کوئی پکڑ نہیں.. ان یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کے لیے کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی.. لے دے کر ان کے پاس دین کی جو پونجی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری ، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ.. انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحبِ علم وفضل اور روحانی قائد وپیشوا سمجھتے تھے..
یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی.. غلّے ، کھجور ، شراب اور کپڑے کی تجارت انہیں کے ہاتھ میں تھی.. یہ غلے ، کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے.. اس کے علاوہ بھی ان کے مختلف کام تھے جن میں وہ سرگرم رہتے تھے.. وہ اموالِ تجارت میں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے بلکہ وہ سود خور بھی تھے.. اس لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کوسودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے جنہیں یہ سردار حصولِ شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کردیتے تھے.. ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں ، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گروی رکھوا لیتے تھے اورچند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے..
یہ لوگ دسیسہ کاریوں ، سازشوں اور جنگ وفساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے.. ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا.. اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپا رہتی اور اگر خدانخواستہ جنگ کی یہ آگ سرد پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی.. کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کا تماشا دیکھتے.. البتہ بھاری بھرکم سودی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح دوہرا نفع کماتے رہتے.. ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے..
بنو قینقاع _ یہ خزرج کے حلیف تھے اور ان کی آبادی مدینے کے اندر ہی تھی..
بنو نضیر اور بنو قریظہ _ یہ دونوں قبیلے اوس کے حلیف تھے اور ان دونوں کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی..
ایک مدت سے یہی قبائل اوس وخزرج کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا رہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے..
فطری بات ہے کہ ان یہود سے اس کے سوا کوئی اور توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض وعداوت کی نظر سے دیکھیں کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے کہ ان کی نسلی عصبیت کو جو اُن کی نفسیات اور ذہنیت کا جزولاینفک بنی ہوئی تھی ، سکون ملتا.. پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی.. بغض وعداوت کی آگ بجھاتی تھی.. تمام معاملات میں امانتداری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کی پابند بناتی تھی.. اِس کا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جُڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں لازماً وہ یہود کے پنجوں سے آزاد ہوجائیں گے.. لہٰذا ان کی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑجائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محروم ہو جائیں گے جس پر ان کی مالداری کی چکی گردش کررہی تھی بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل بیدار ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی داخل نہ کرلیں جنہیں یہود نے ان سے بلاعوض حاصل کیا تھا اور اس طرح وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے ہتھیا لیا تھا..
جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کر رکھا تھا.. اسی لیے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہوگئی تھی.. اگرچہ وہ اس کے مظاہرے کی جسارت خاصی مدت بعد کرسکے..
اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتا ابن ِ اسحاق کے بیان کیے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے.. ان کا ارشاد ہے کہ مجھے اُمّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی بن اخطب سے یہ روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا..
"میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی.. میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اُٹھاتے.. جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور قباء میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں نزول فرما ہوئے تو میرے والد حیی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروب ِ آفتاب کے وقت واپس آئے.. بالکل تھکے ماندے ، گرتے پڑتے , لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے.. میں نے حسب ِ معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ واللہ ! دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حیی بن اخطب سے کہہ رہے تھے..
کیا یہ وہی ہے..؟
انہوں نے کہا.. ہاں ! اللہ کی قسم..
چچا نے کہا.. آپ انھیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں..؟
والد نے کہا.. ہاں..
چچانے کہا.. تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں..؟
والد نے کہا.. عداوت ! اللہ کی قسم ! جب تک زندہ رہوں گا.."
( ابن ہشام ۱/۵۱۸ ، ۵۱۹)
اسی کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے جس میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے.. موصوف ایک نہایت بلند پایہ یہودی عالم تھے.. آپ کو جب بنو النجار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر ملی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بہ عجلت تمام حاضر ہوئے اور چند سوالات پیش کیے جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کے جوابات سنے تو وہیں اسی وقت مسلمان ہوگئے.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ یہود ایک بہتان باز قوم ہے.. اگر انہیں اس سے قبل کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دریافت فرمائیں ، میرے اسلام لانے کا پتا لگ گیا تو وہ آپ کے پاس مجھ پر بہتان تراشیں گے.. لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو بلا بھیجا..
وہ آئے اور ادھر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ "عبداللہ بن سلام تمہارے اندر کیسے آدمی ہیں..؟"
انہوں نے کہا.. ''ہمارے سب سے بڑے عالم ہیں اور سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں.. ہمارے سب اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں..'' ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں اور ہم میں سب سے افضل ہیں اور سب سے افضل آدمی کے بیٹے ہیں..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. ''اچھا یہ بتاؤ اگر عبداللہ مسلمان ہوجائیں تو..؟''
یہود نے دو تین بار کہا.. "اللہ ان کو اس سے محفوظ رکھے.."
اس کے بعد حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے اور فرمایا.. "أشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ وأشہد أن محمداً رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)"
اتنا سننا تھا کہ یہود بول پڑے.. ''یہ ہمارا سب سے بُرا آدمی ہے اور سب سے برے آدمی کا بیٹا ہے.." اور (اسی وقت) ان کی برائیاں شروع کردیں..
ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. ''اے جماعتِ یہود ! اللہ سے ڈرو.. اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! تم لوگ جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق لے کر تشریف لائے ہیں.."
لیکن یہودیوں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو..
( صحیح بخاری ۱/۴۵۱ ، ۵۵۶ ، ۵۶۱)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌴================🌴
❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..
🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ
👉🏻Forward To All Groups Friends And Family Members For Sadq e Jaria
0 Comments