Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 46


❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا.........


 🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻

قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔㊻

🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️

' جب جستجو کی آگ بجھ گئی ، تلاش کی تگ و دو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے مدینہ کے لئے نکلنے کا عزم فرمایا ۔ عبد الله بن اریقط لَیثی سے جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا ، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا ۔یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا لیکن قابل ِ اطمینان تھا اس لئے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں ۔ اور طے ہوا تھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غارِ ثور پہنچ جائے گا ۔  چنانچہ جب دوشنبہ کی رات آئی جو ربیع الاول 🌙یکم ہجری کی رات تھی ( بمطابق ۱۶ستمبر ۶۲۲ء ) تو عبد الله بن اریقط سواریاں لے کر آ گیا ۔ اور اسی موقع پر حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں افضل ترین اونٹنی پیش کرتے ہوئے گذارش کی کہ آپ میری ان دو سواریوں میں سے ایک قبول فرما لیں ۔  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا قیمتاً لوں گا ۔
ادھر اسماء بنت ابی بکر رضی الله تعالی عنھا بھی زادِ سفر لے کر آئیں ۔ مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول کئیں ۔ جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے انہوں نے اپنا پٹکا ( کمر بند ) کھولا اور دو حصوں میں چاک کر کے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا ۔ اسی وجہ سے ان کا لقب " ذاتُ النِّطاقین " پڑ گیا  ۔
اس کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ابوبکر رضی الله عنہ نے کوچ فرمایا ۔ عامر بن فہیرہ رضی الله عنہ بھی ساتھ تھے ۔ رہنما عبد الله بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا ۔  غار سے روانہ ہو کر اس نے سب سے پہلے یمن کے رُخ چلایا اور جنوب کی سمت خوب دور تک لے گیا ۔ پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحلِ سمندر کا رُخ کیا ۔ پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے شمال کی طرف مُڑ گیا ۔ یہ راستہ بحرِ احمر کے ساحل کے قریب ہی تھا ۔ اس پر شاذونادر ہی کوئی چلتا تھا ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس راستے میں جن مقامات سے گزرے ابنِ اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے ۔
آئیے اب راستے کے چند واقعات بھی سُنتے چلیں ۔۔۔  🍀
صحیح بُخاری میں حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ہم لوگ غار سے نکل کر رات بھر اور دن میں دوپہر تک چلتے رہے ۔ جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا  راستہ خالی ہو گیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی  جس کے سائے پر دھوپ نہیں آئی تھی ۔ ہم وہیں اتر پڑے ۔ میں نے اپنے ہاتھ سے نبی صلی الله علیہ وسلم کے سونے کے لئے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی کہ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم آپ سو جائیں اور میں آپ کے گردوپیش کی دیکھ بھال کئے لیتا ہوں ۔  آپ صلی الله علیہ وسلم سو گئے اور میں دیکھ بھال کے لئے نکلا ۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چرواہا  اپنی بکریاں لئے چٹان کی جانب چلا آ رہا ہے ۔ وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا تھا ۔  میں نے اُس سے کہا 'اے نوجوان تم کس کے آدمی ہو ؟  اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا ۔ میں نے کہا' تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے؟ اس نے کہا ' ہاں ۔ میں نے کہا ' دوہ سکتا ہوں ؟ اس نے کہا ' ہاں ! اور ایک بکری پکڑی ۔ میں نے کہا ذرا تھن کو مٹی ، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کر لو ۔ پھر اس نے ایک قاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللهصلی الله علیہ وسلم کے پینے اور وضو وغیرہ کرنے کے لئے رکھ لیا تھا ۔ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا لیکن گوارا نہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں ۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا  یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا ۔ اس کے بعد میں نے کہا " اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ! پی لیجئے ۔ آپ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا ۔
 پھر آپ نے فرمایا کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ! اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے ۔
🍀
اس سفر میں ابوبکر رضی الله عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ردیف رہا کرتے تھے ۔ چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے اس لئے لوگوں کی توجہ انہیں پہ جاتی تھی ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ ابوبکر رضی الله عنہ سے پوچھتا یہ آپ کے آگے کون ہے ؟ ( حضرت ابوبکر اس کا بڑا لطیف جواب دیتے ) فرماتے : " یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے ۔" اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ وہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں ۔  حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے ۔
🍀
 اسی سفر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا گذر اُمّ مَعْبَد خزاعیہ کے خیمے سے ہوا ۔ یہ ایک نمایاں اور توانا عورت تھیں ۔ ہاتھوں میں گھٹنے ڈالے راستے میں بیٹھی رہتی تھیں ۔ اور آنے جانے والوں کو کھلاتی پلاتی رہتیں ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ پاس میں کچھ ہے ؟ بولیں " بخدا ہمارے پاس کچھ ہوتا توآپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی ۔ بکریاں بھی دور دراز ہیں " یہ قحط کا زمانہ تھا ۔
 رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے ۔ فرمایا! " اُمّ معبد ! یہ کیسی بکری ہے ؟  بولیں " اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے " ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا  کیا اس میں کچھ دودھ ہے ؟  بولیں " وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے ۔ " آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! " اجازت ہے کہ اسے دوہ لوں ؟ "  بولیں : ہاں میرے ماں باپ تم پر قربان  ۔ اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوہ لو ۔ اس گفتگو  کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا۔ الله کا نام لیا اور دعا کی ۔ بکری نے پاؤں پھیلا دئے ۔ تھن میں بھر پور دودھ اتر آیا ۔ آپ نے اُمّ مَعبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کر سکتا تھا ۔ اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آ گیا ۔ پھر اُمّ معبد کو پلایا ۔ وہ پی کر شکم سیر ہو گئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا ۔ وہ بھی شکم سیر ہو گئے ۔ تو خود پیا ۔ پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنا دودھ دوہا کہ برتن بھر گیا ۔ اور اسے اُمّ معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے ۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر ابو معبد اپنی کمزور بکریوں کو جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں ، ہانکتے ہوئے آپہنچے ۔ دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے ۔ پوچھا یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا ؟ جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی ۔ بولیں :" کچھ نہیں بخدا کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک
با برکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی ۔ اور یہ اور یہ حال تھا ۔ ابو معبد نے کہا یہ تو وہی صاحبِ قریش معلوم ہوتا ہے جسے قریش تلاش کر رہے ہیں ۔ اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو ۔ اس پر اُمّ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے ۔ ۔۔۔ یہ اوصاف سُن کر ابو معبد نے کہا : " و الله یہ تو وہی صاحبِ قریش ہے جس کے بارے میں لوگوں نے قسم قسم کی باتیں بیان کی ہیں ۔ میرا ارادہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت اختیار کروں اور کوئی راستہ ملا تو ایسا ضرور کروں گا ۔ "
🍀
راستے میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو بُرَیْدَہ اَسْلَمِی ملے ۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے ۔ اور قریش نے جس زبردست انعام کا اعلان کر رکھا تھا اسی کے لالچ میں نبی صلی الله علیہ وسلم اور ابو بکر رضی الله عنہ کی تلاش میں نکلے تھے ۔ لیکن جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سامنا ہوا اور بات چیت ہوئی تو نقد دل دے بیٹھے ۔ اور اپنی قوم کے ستر آدمیوں سمیت وہیں مسلمان ہو گئے ۔ پھر اپنی پگڑی اُتار کر نیزے سے باندھ لی ۔ جس کا سفید پھریرا ہوا میں لہراتا اور بشارت سُناتا تھا کہ امن کا بادشاہ ، صلح کا حامی ، دُنیا کو عدالت و انصاف سےبھر پور کرنے والا تشریف لا رہا ہے ۔
🍀
جب آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ کے قریب پہنچے تو حضرت زبیر بن عوام رضی الله عنہ مسلمانوں کے ایک کاروانِ تجارت کے ساتھ شام سے واپس ہوتے ہوئے آپ کو ملے ۔ حضرت زبیر رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم  اور حضرت ابو بکر  رضی الله عنہ کو سفید پارچہ جات پیش کئے ۔ ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے بھی دونوں حضرات کی خدمت میں لباس پیش کیا ۔
اس دن  نبی صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی  اور جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز ۹ ربیع الاول ۴۱ عام الفیل مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق اپ کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے ۔ ۔
البتہ جو لوگ آپ کی نبوت کا آغاز رمضان  ۴۱  عام الفیل مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق بارہ سال ، پانچ مہینے اٹھارہ دن یا بائیس  دن ہوئے تھے ۔
 
الرحیق المختوم ۔۔۔۔ صفی الرحمٰن مبارک پوری 
سیرتِ مصطفٰی ۔۔۔۔ محمد ادریس کاندھلوی

حلیہ مبارک ۔۔۔۔۔
ہجرت کے وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اُمِّ مَعْبد خزاعیہ رضی الله عنھا کے خیمے سے گزرے تو اس نے آپ کی روانگی کے بعد اپنے شوہر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا جو نقشہ کھینچا وہ یہ تھا
🌹 
چمکتا رنگ  ، تابناک چہرہ۔ ، خوبصورت ساخت ، نہ توندے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی ، جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر  ، سرمگیں آنکھیں ، لمبی پلکیں، بھاری آواز ، لمبی گردن ، سفید وسیاہ آنکھیں ، سیاہ سرمگیں پلکیں  ، باریک اور باہم ملے ہوۓ ابرو ، چمکدار کالے بال  ، خاموش ہوں تو باوقار ، گفتگو کریں تو پُرکشش ، دور سے ( دیکھنے میں  ) سب سے تابناک و پُر جمال ، قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں ، گفتگو میں چاشنی ، بات واضح اور دو ٹوک ، نہ مختصر نہ فضول ، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں ، درمیانہ قد نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے ، نہ لمبا کہ ناگوار لگے ، دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ اور خوش منظر ہے ۔ رُفقا آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے کچھ فرمائیں تو توجہ سے سُنتے ہیں ، کوئی حکم دیں تو لپک کر بجا لاتے ہیں ۔ مطاع و مکرم ، نہ تُرش رُو ، نہ لغو گو ۔۔۔۔
حضرت علی رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :🌹
آپ نہ لمبے تگڑے تھے نہ ناٹے چھوٹے ، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے ۔ بال نہ زیادہ  گھنگریالے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی ۔ رخسار نہ بہت زیادہ پُر گوشت تھے ، نہ ٹھوڑی چھوٹی تھی اور نہ ہی پیشانی پست ۔ چہرہ کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ رنگ گورا گلابی ، آنکھیں سُرخی مائل ، پلکیں لمبی ، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی ، سینہ پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر ، باقی جسم بالوں سے خالی ، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں پُر گوشت ، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اُٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں ۔ جب کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے ۔ دونوں کندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت تھی ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم سارے انبیاء علیھم السلام کے خاتم تھے ۔ سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرآت مند ، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد وپیمان کے پابندِ وفا ، سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے زیادہ شریف ساتھی ۔
جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہو جاتا ۔ جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا ۔ آپ کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے ۔کہ
 میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد آپ جیسا نہیں دیکھا
🌹
حضرت علی رضی الله عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا تھا ، جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں۔ سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی ۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم چلتے تو قدرے جھک کر چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اُتر رہے ہیں ۔
🌹
حضرت جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا دہانہ کشادہ تھا آنکھیں ہلکی سُرخی لئے ہوئے اور ایڑیاں باریک ۔
🌹
حضرت ابو الطفیل رضی الله عنہ کہتے ہیں
کہ آپ گورے رنگ ، پُر ملاحت چہرے اور میانہ قدوقامت کے تھے ۔
🌹
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں ، اور رنگ چمکدار ، نہ خالص سفید، نہ گندم گوں ، وفات کے وقت تک سر اور چہرے مبارک کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے ۔ صرف کنپٹی کے بالوں میں کچھ سفیدی تھی  اور چند بال سر کے سفید تھے
🌹
حضرت ابو جحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہونٹ کے نیچےعنفقہ ( داڑھی بچہ ) میں سفیدی دیکھی ۔
🌹
حضرت عبد الله بن بسر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ کی عنفقہ ( داڑھی بچہ ) میں چند بال سفید تھے ۔
🌹
حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا پیکر درمیانی تھا ۔ دونوں کندھوں کے درمیان دوری تھی ۔ بال دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے ۔ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو سُرخ جوڑا زیبِ تن کئے ہوئے دیکھا ۔ کبھی کوئی چیز آپ سے زیادہ خوبصورت نہ دیکھی ۔ پہلے آپ اھل کتاب کی موافقت کرتے اس لئے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے ۔ لیکن بعد میں نکالا کرتے تھے ۔
حضرت براء کہتے ہیں :آپ کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق سب سے بہتر تھے ۔ ان سے دریافت کیا گیا کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا ۔ انہوں نے کہا نہیں بلکہ چاند جیسا تھا ۔۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک گول تھا
🌹
ربیع بنت معوّذ کہتی ہیں کہ اگر تم حضور کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے ۔
 حضرت جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ پر سُرخ جوڑا تھا۔ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھتا ، اور چاند کو دیکھتا ۔ آخر  (اس نتیجہ پر پہنچا ) آپ چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں ۔
 حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ لگتا تھا سورج آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر رواں دواں ہے ۔ اور میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا ۔ لگتا تھا زمین آپ کے لئے لپیٹی جا رہی ہے ۔ ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھے ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم بالکل بے فکر ۔
🌹
حضرت کعب بن مالک کا بیان ہےکہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا ۔ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے ۔
ایک بار حضرت عائشہ رضی الله عنھا کے پاس تشریف فرما تھے ۔ پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں ۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ رضی الله عنھا نے ابو کبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا:- 
 و اذا نظرت الی أسرہ وجھه 🌹
برقت کبرق العارض المتہلل
" جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو "
🌹
  حضرت ابو بکر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے : ۔
🌹
آمین مصطفی بالخیر یدعو کضوء البدر زایله الظلام 
 " آپ امین ہیں ، چنیدہ  و برگزیدہ ہیں ، خیر کی دعوت دیتے ہیں ، گویا ماہ کامل کی روشنی ہیں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے  "
🌹 
حضرت عمر رضی الله عنہ  زُہیر کا یہ شعر پڑھتے جو ہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ :-
 لو کنت من شیئٍ سوی البشر کنت المضیءَ  لیلۃ البدر
اگر آپ صلی الله علیہ وسلم بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ ہی چودھویں کی رات کو روشن کرتے  ۔
پھر فرماتے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایسے ہی تھے 
جب آپ غضب ناک ہوتے تو چہرہ سُرخ ہو جاتا گویا دونوں رُخساروں میں دانۂ انار نچوڑ دیا گیا ہے ۔
🌹حضرت جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں ۔ اور آپ ہنستے تو صرف تبسم فرماتے ۔ ( آنکھیں سُرمگیں تھیں )  تم دیکھتے تو کہتے کہ آپ نے آنکھوں میں سُرمہ لگا رکھا ہے  حالانکہ سُرمہ نہ لگا ہوتا ۔
🌹حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے آگے کے دونوں دانت الگ الگ تھے ۔ جب آپ گفتگو فرماتے تو ان دانتوں کے درمیان سے نور جیسا نکلتا دکھائی دیتا ۔
 گردن گویا چاندی کی صفائی لئے ہوئے گڑیا کی گردن تھی ۔ پلکیں طویل ، داڑھی  گھنی ، پیشانی کشادہ ، ابرو پیوستہ اور ایک دوسرے سے الگ ، ناک اونچی  ، رخسار ہلکے ، لبہ سے ناف تک  چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال ، اور اس کے سوا شکم اور سینے پر کہیں بال نہیں ۔ البتہ بازوں اور مونڈھوں پر بال تھے ۔ شکم اور سینہ برابر ، سینہ مسطح اور کشادہ ، کلائیاں بڑی بڑی  ہتھیلیاں کشادہ ، قد کھڑا ، تلوے خالی ، اعضاء بڑے بڑے ۔ جب چلتے تو جھٹکے کے ساتھ چلتے ، قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے او سہل رفتار سے چلتے ۔
🌹حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر اور دیبا نہیں چھوا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو ۔ اور نہ کبھی کوئی عنبر ، مُشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خوشبو سے بہتر ہو ۔
🌹حضرت  ابو جحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کا  ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مُشک سے زیادہ خوشبودار تھا ۔
🌹حضرت جابر بن سمرہ ۔۔۔ جو بچے تھے ۔۔۔ کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے میرے رخسار پر ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی کہ گویا آپ نے اسے عطار کے عطردان سے نکالا ہے ۔
🌹حضرت انس کا بیان ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا ۔ اور حضرت اُمّ سلیم کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی ۔
🌹حضرت جابر کہتے ہیں : آپ صلی الله علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتےاور آپ کے بعد کوئی اور گزرتا تو آپ کے کے جسم یا پسینے کی خوشبو کی وجہ سے  جان جاتا کہ آپ یہاں سے تشریف لے کر گئے ہیں
🌹آپ صلی الله علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی  جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسم مبارک ہی کے مشابہ تھی ۔ یہ بائیں کندھے کی کری ( نرم ہڈی ) کے پاس تھی ۔ اس پر مسوں کی طرح تِلوں کا جھمگٹ تھا ۔
 
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌴================🌴
❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..
🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ

👉🏻Forward To All Groups Friends And Family Members For Sadq e Jaria

Post a Comment

0 Comments