Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 25


❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا.........


 🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻

قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔➋➎

🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️

بیرون ِ مدینہ مسلمانوں کے سب سے کٹر دشمن قریش تھے اور تیرہ سال تک جب کہ مسلمان ان کے زیر دست تھے ، دہشت مچانے ، دھمکی دینے اور تنگ کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرچکے تھے.. طرح طرح کی سختیاں اور مظالم کرچکے تھے.. منظم اور وسیع پروپیگنڈے اور نہایت صبر آزما نفسیاتی حربے استعمال میں لاچکے تھے.. پھر جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی تو قریش نے ان کی زمینیں ، مکانات اور مال ودولت سب کچھ ضبط کرلیا اور مسلمانوں اور اس کے اہل وعیال کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے.. بلکہ جس کو پایا , قید کرکے طرح طرح کی اذیتیں دیں..

پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ سربراہِ دعوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو بیخ وبُن سے اکھاڑنے کے لیے خوفناک سازشیں کیں اور اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں.. بایں ہمہ جب مسلمان کسی طرح بچ بچا کر کوئی پانچ سو کیلو میٹر دور مدینہ کی سرزمین پر جاپہنچے تو قریش نے اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھناؤنا سیاسی کردار انجام دیا یعنی یہ چونکہ حرم کے باشندے اور بیت اللہ کے پڑوسی تھے اور اس کی وجہ سے انہیں اہلِ عرب کے درمیان دینی قیادت اور دنیاوی ریاست کا منصب حاصل تھا اس لیے انہوں نے جزیرۃ العرب کے دوسرے مشرکین کو بھڑکا اور ورغلا کر مدینے کا تقریباً مکمل بائیکاٹ کرادیا جس کی وجہ سے مدینہ کی درآمدات نہایت مختصر رہ گئیں.. جب کہ وہاں مہاجرین پناہ گیروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی..

درحقیقت مکے اور مسلمانوں کے اس نئے وطن کے درمیان حالت جنگ قائم ہوچکی تھی اور یہ نہایت احمقانہ بات ہے کہ اس جھگڑے کا الزام مسلمانوں کے سرڈالاجائے.. مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ جس طرح ان کے اموال ضبط کیے گئے تھے اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کے اموال ضبط کریں.. جس طرح انہیں ستایا گیا تھا اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کو ستائیں.. اور جس طرح مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اسی طرح مسلمان بھی ان سرکشوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان سرکشوں کو ''جیسے کا تیسا'' والا بدلہ دیں تاکہ انہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے اور بیخ وبن سے اکھاڑنے کا موقع نہ مل سکے..

یہ تھے وہ قضایا اور مسائل جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ تشریف لانے کے بعد بحیثیت رسول وہادی اور امام وقائد واسطہ درپیش تھا..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام مسائل کے تئیں مدینہ میں پیغمبرانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کیا اور جو قوم نرمی ومحبت یا سختی ودرشتی _ جس سلوک کی مستحق تھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رحمت ومحبت کا پہلو سختی اور درشتی پر غالب تھا.. یہاں تک کہ چند برسوں میں زمامِ کار اسلام اور اہل اسلام کے ہاتھ آگئی..

اگلی تحاریر میں انہی باتوں کی تفصیلات ہدیۂ قارئین کی جائیں گی..

الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

ہم بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے میں بنو النجار کے یہاں جمعہ 12 ربیع الاول 1ھ مطابق 28 ستمبر 622ء کو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے نزول فرمایا تھا اور اسی وقت فرمایا تھا کہ ان شاء اللہ یہیں منزل ہوگی.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہوگئے تھے.. اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا قدم یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد ِ نبوی کی تعمیر شروع کی اور اس کے لیے وہی جگہ منتخب کی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی بیٹھی تھی..
اس زمین کے مالک دو یتیم بچے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یہ زمین قیمتاً خریدی اور بنفس ِنفیس مسجد کی تعمیر میں شریک ہوگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اینٹ اور پتھر ڈھوتے تھے.. اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں بھی تھیں.. کچھ ویرانہ بھی تھا.. کھجور اور غَرْقَد کے چند درخت بھی تھے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کی قبریں ہٹوا دیں ، ویرانہ ختم کرا دیا اور کھجوروں اور درختوں کو کاٹ کر قبلے کی جانب لگا دیا..
اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا.. دروازے کے بازو کے دونوں پائے پتھر کے بنائے گئے.. دیواریں کچی اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں.. چھت پر کھجور کی شاخیں اور پتے ڈلوا دیئے گئے اور کھجور کے تنوں کے کھمبے بنا دیے گئے.. زمین پر ریت اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں (چھریاں) بچھا دی گئیں.. تین دروازے لگائے گئے.. قبلے کی دیوار سے پچھلی دیوار تک ایک سو ہاتھ لمبائی تھی.. چوڑائی بھی اتنی یا اس سے کچھ کم تھی.. بنیاد تقریباً تین ہاتھ گہری تھی..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے بازو میں چند مکانات بھی تعمیر کیے جن کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں اور چھتیں کھجور کے تنوں کی کڑیاں دے کر کھجور کی شاخ اور پتوں سے بنائی گئی تھی.. یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حجرے تھے.. ان حجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان سے یہیں منتقل ہوگئے..
صحیح بخاری ۱ /۷۱ ، ۵۵۵ ، ۵۶۰
زاد المعاد ۲/۵۶
مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبت سے مل جل رہے تھے.. نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھی سی ریاست کا سارا نظام چلایا جاتا تھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں.. علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلس ِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے..
ان سب کے ساتھ ساتھ یہ مسجد ہی ان فقراء مہاجرین کی ایک خاصی بڑی تعداد کا مسکن تھی جن کا وہاں پر نہ کوئی مکان تھا نہ مال اور نہ اہل وعیال..
پھر اوائل ہجرت ہی میں اذان بھی شروع ہوئی.. یہ ایک لاہوتی نغمہ تھا جو روزانہ پانچ بار اُفق میں گونجتا تھا اور جس سے پورا عالمِ وجود لرز اٹھتا تھا.. یہ روزانہ پانچ مرتبہ اعلان کرتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی لائق عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیغامبر ہیں.. یہ اللہ کی کبریائی کو چھوڑ کر ہر کبریائی کی نفی کرتا تھا اور اس کے بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اس وجود سے ہر دین کی نفی کرتا تھا..
اسے خواب میں دیکھنے کا شرف ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے برقرار رکھا اور یہی خواب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھا.. تفصیل جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، مسند احمد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے..

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌴================🌴
❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..
🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ

👉🏻Forward To All Groups Friends And Family Members For Sadq e Jaria

Post a Comment

0 Comments