فضائل عشرہ ذی الحجۃ و احکام قربانی
🌹🌱🌹🌱🌹🌱🌹🌱🌹🌱🌹
💥 (قربانی کی اہمیت کا ایک اور پہلو) ✨
🌸🌼🌸🌼🌸🌼🌸🌼🌸🌼🌸
💥 (الحاد اور لبرل ازم کےمارے بعض روشن خیال مسلمانوں کے افاقہ کے لیے، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ انہیں شفاۓ کاملہ عاجلہ عطا فرماۓ) ✨
🌸🌼👇🌼🌸👇🌸🌼👇🌼🌸
🌹⬅ صحیح بخاری میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ منقول ہے:
🌹 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے. ایک عورت آئی اور اس نے اپنا نفس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد کر دیا کہ اس کی جہاں چاہیں شادی کر دیں. ایک غریب کنوارے صحابی وہاں موجود تھے. انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس کی شادی آپ مجھ سے کر دیجیے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا : "تمھارے پاس اسے حق مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟ " اس نے کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جاؤ اگر لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے تو لے آنا ہم وہی حق مہر بنا کر اس کا نکاح تجھ سے کر دیں گے. وہ صحابی اپنے گھر گیا مگر غربت کا عالم یہ تھا کہ گھر سے لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہ ملی. اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے پاس ایک چادر ہے. اس میں سے آدھی میں حق مہر میں اسے دے دیتا ہوں اور آدھی خود رکھ لیتا ہوں.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :"وہ آدھی نہ آپ کے کسی کام آئے گی اور نہ اس کے کام آئے گی."
وہ خاموشی سے ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا. تھوڑی دیر بیٹھا رہا مگر اٹھ کر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلایا اور پوچھا:"تمھیں قرآن میں سے کچھ یاد ہے؟" اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے ان سورتوں کے عوض تمھارا نکاح اس سے کر دیا( یعنی وہ سورتیں تم اسے یاد کروا دینا )"
( صحیح البخاری :5121)
اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دور نبوت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی غربت کا کیا عالم تھا. ایک صحابی کے پاس حق مہر دینے کے لیے جو کہ فرض تھا، ایک لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی چاندی اور سونا تو دور رہا.
کتب احادیث میں ایسی غربت کے بےشمار واقعات ملتے ہیں.
🌼🌸👇🌸🌼👇🌼🌸👇🌸🌼
🌹⬅ اب آئیے اصل مسئلہ کی طرف :
🌹 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال گزارے اور ہر سال آپ نے قربانی کی
🌹 حتی کہ ایک سال سو اونٹ نحر کیے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دس سالوں میں کبھی یہ نہیں کہا کہ اس سال ہم قربانیاں نہیں کریں گے بلکہ قربانی کا پیسہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر خرچ کریں گے.
اگر قربانی کے جانور ذبح کرنے کی بجائے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر پیسہ خرچ کرنا قربانی سے افضل ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ضرور اس کا حکم دیتے مگر آپ نے تو شادی کی استطاعت نہ رکھنے والوں سے فرمایا :
🌹 "اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کر لے اور جو استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، اس لیے کہ یہ روزہ اس کے لیے( گناہ سے بچنے کی )ڈھال ثابت ہو گا."
( صحیح البخاری :5066)
جوں جوں قربانی کے ایام قریب آئیں گے توں توں غریبوں کے بہت سے خیرخواہ( لبرل ) اپنی بلوں سے نکلنا شروع ہو جائیں گے. ان کا مقصد غریبوں کی حمایت نہیں بلکہ شعائر اسلام کی تحقیر ہوتا ہے. ان کے دلوں میں شعائر اسلام کا بغض اور نفرت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے.
قربانی ایک عظیم عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے. شکوک و شبہات سے بچیے اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں جانور ذبح کیجیے. اسی میں خیر اور بھلائی ہے.
🌺👇🌸👇🌼👇🌺👇🌸👇🌼
یاد رہےقربانی مشروع اوراختیاری یعنی واجب نہ ہونے کی باوجود جو اس کی طاقت رکھے اور قربانی نہ کرے اس کے لئے بڑی وعید ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
🌹 من كانَ لَه سَعةٌ ولم يضحِّ فلا يقربنَّ مصلَّانا
(صحيح ابن ماجه:2549)
ترجمہ: جس کوقربانی دینے کی گنجائش ہو اوروہ قربانی نہ دے تو وہ ہمارے عید گاہ میں نہ آئے۔
══════════════𖣔
💐
0 Comments