💰- قربانی کے لیے قرض لینا کیسا ہے؟
♾️(مفتی حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ)
سوال: ہمارے بھائی مقروض ہیں اور وہ قربانی کرنا چاہتے ہیں، انہیں کسی نے بتایا ہے کہ آپ کے لیے قربانی کے بجائے قرض اتارنا ضروری ہے۔ آپ قرض اتاریں اور قربانی نہ کریں، اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب:
قربانی کے متعلق
❤️رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس کے پاس قربانی کرنے کی گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘[1]
اس حدیث سے بظاہر قربانی کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن دوسرے دلائل کے پیش نظر
جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ قربانی کرنا سنت موکدہ ہے۔
یعنی ایک اہم اور مؤکد حکم ہے۔
استطاعت کے باوجود اس سنت مؤکدہ سے گریز کسی طرح بھی صحیح نہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی نہ کرنے والا مسلمانوں کی اجتماعی خوشی میں شریک ہونے کا حق نہیں رکھتا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے نماز عید پڑھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے تنبیہ کرنا ہے کہ استطاعت کے باوجود وہ اسے ترک نہ کرے۔
شریعت اسلامیہ میں تلاش بسیار کے باوجود ہمیں ایسی کوئی دلیل نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ مقروض شخص قربانی نہیں کر سکتا یا قرض لے کر قربانی نہیں کی جا سکتی۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ قرض لینے کے بعد اسے جلد از جلد اتارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’ابن آدم کی جان قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے تا آنکہ سے ادا کر دیا جائے۔‘‘[2]
اسی طرح ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا، یا رسول اللہ! اگر میں لڑتے لڑتے اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو مجھے کیا اجر ملے گا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تجھے جنت ملے گی، جب وہ واپس جانے لگا
تو آپ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے ابھی ابھی میرے کان میں کہا ہے کہ ایسے حالات میں قرض معاف نہیں ہو گا۔‘‘[3]
قرض کے متعلق اس قدر وعید شدید کے باوجود اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگر مقروض شخص قربانی کرے گا تو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی، بلکہ قربانی ایک ایسی عبادت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوام فرمایا ہے اور اس کے متعلق امت کو بہت ترغیب دلائی ہے۔
👈🏻پھر قرض کی دو اقسام ہیں:
ایک قرض وہ ہوتا ہے جو کاروبار کے لیے لیا جاتا ہے۔ ا س قسم کے قرض میں آئی چلائی ہوتی رہتی ہے لہٰذا اس قسم کا قرض قربانی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
دوسرا قرض وہ ہے جو گھریلو ضروریات کے لیے لیا جاتا ہے اور قرض خواہ کی طرف سے اسے پابند نہیں کیا گیا کہ اسے فوراً ادا کیا جائے بلکہ اس کی طر ف سے ڈھیل ہوتی ہے کہ جب استطاعت ہو اسے ادا کر دیا جائے۔
یہ قربانی کے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔
ہاں گھریلو ضروریات کے لیے لیا ہوا قرض جس کے متعلق قرض خواہ کی طرف سے پابندی ہوتی ہے کہ اسے عید سے قبل ادا کرنا ہے
ایسے قرض کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ قربانی کی بجائے اپنا قرض اتارے۔
👈🏻ہمارے رجحان کے مطابق اگر مقروض شخص قربانی جیسی عبادت کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے۔
👈🏻ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے خزانہ غیب سے قرض اتارنے کی کوئی سبیل پیدا کر دے۔
واللہ اعلم!
[1] ابن ماجہ، الاضاحی:۳۱۲۳۔
[2] مسند احمد، ج۲،ص۵۰۱۔
[3] مسند احمد، ج۳، ص۳۲۵۔
══════════════𖣔
💐
0 Comments