Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ


❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا


 🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻


قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔➍➎


🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️


اس حکمتِ بالغہ اور اس دُور اندیشی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نئے معاشرے کی بنیادیں اُستوار کیں.. لیکن معاشرے کا ظاہری رُخ درحقیقت ان معنوی کمالات پر تھا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت وہم نشینی کی بدولت یہ بزرگ ہستیاں بہرہ ور ہوچکی تھیں.. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعلیم وتربیت ، تزکیۂ نفس اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب میں مسلسل کوشاں رہتے تھے اور انہیں محبت وبھائی چارگی ، مجدوشرف اور عبادت واطاعت کے آداب برابر سکھاتے اور بتاتے رہتے تھے..


ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا اسلام بہتر ہے..؟ (یعنی اسلا م میں کون سا عمل بہتر ہے..؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. ''تم کھانا کھلاؤ اور شناسا اور غیرشناسا سبھی کو سلام کرو..''(صحیح بخاری ۱/۶، ۹)


''اے لوگو ! سلام پھیلاؤ ، کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سورہے ہوں نماز پڑھو.. جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے..''(ترمذی , ابن ماجہ ، دارمی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۸)


''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں.." (صحیح مسلم ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)


''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا , یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے.."


"سارے مومنین ایک آدمی کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اگر سر میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے..'' (صحیح بخاری ۱/۶)


''مومن مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا بعض بعض کو قوت پہنچا تا ہے..'' (مسلم ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)


''آپس میں بغض نہ رکھو ، باہم حسد نہ کرو ، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.. کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رہے.." (متفق علیہ ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲ صحیح بخاری ۲/۸۹۰)


''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے.. نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے دشمن کے حوالے کرے.. اورجو شخص اپنے بھائی کی حاجت (برآری) میں کوشاں ہوگا اللہ اس کی حاجت (برآری) میں ہوگا.. اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی غم اور دُکھ دُور کرے گا اللہ اس شخص سے روز قیامت کے دُکھوں میں سے کوئی دُکھ دُور کرے گا.. اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا.." (صحیح بخاری ۲/۸۹۶)


"تم لوگ زمین والوں پر مہربانی کرو , تم پر آسمان والا مہربانی کرے گا..'' (متفق علیہ مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)


''وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کھالے اوراس کے بازو میں رہنے والا پڑوسی بھوکا رہے..'' (سنن ابی داؤد ۲/ ۳۳۵۔ جامع ترمذی ۲/۱۴)


''مسلمان سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اوراس سے مار کاٹ کرنا کفر ہے..'' (شعب الایمان للبیہقی ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۴)


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدقے اور خیرات کی ترغیب دیتے تھے.. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ صدقہ گناہوں کو ایسے ہی بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے.. (احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ۔ مشکوٰۃ ۱/۱۴)


اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنا دے اللہ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلا دے اللہ اسے جنت کے پھَل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلادے اللہ اسے جنت کی مُہر لگی ہوئی شراب طہور پلائے گا.. (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۹)


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے.. ''آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرکے.. اور اگر وہ بھی نہ پاؤ تو پاکیزہ بول ہی کے ذریعے..'' (ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۳)


اور اسی کے پہلو بہ پہلو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مانگنے سے پرہیز کی بھی بہت زیادہ تاکید فرماتے.. صبر وقناعت کی فضیلتیں سناتے اور سوال کرنے کو سائل کے چہرے کے لیے نوچ ، خراش اور زخم قرار دیتے.. البتہ اس سے اس شخص کو مُستثنیٰ قرار دیا جو حد درجہ مجبور ہو کر سوال کرے..


اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی بیان فرماتے کہ کن عبادات کے کیا فضائل ہیں اور اللہ کے نزدیک ان کا کیا اجر وثواب ہے.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آسمان سے جو وحی آتی , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے مسلمانوں کو بڑی پختگی کے ساتھ مربوط رکھتے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ وحی مسلمانوں کو پڑھ کرسناتے اور مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سناتے تاکہ اس عمل سے ان کے اندر فہم و تدبر کے علاوہ دعوت کے حقوق اور پیغمبرانہ ذمّے داریوں کا شعور بیدار ہو..


اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی اخلاقیات بلند کیں ، ان کی خداداد صلاحیتوں کو عروج بخشا اور انہیں بلند ترین اقدار و کردار کا مالک بنایا.. یہاں تک کہ وہ انسانی تاریخ میں انبیاء کے بعد فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی کا نمونہ بن گئے.. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں..


"جس شخص کو طریقہ اختیار کرنا ہو وہ گزرے ہوئے لوگوں (یعنی صحابہ) کا طریقہ اختیار کرے کیونکہ زندہ کے بارے میں فتنے کا اندیشہ ہے.. وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی تھے.. اس امت میں سب سے افضل ، سب سے نیک دل ، سب سے گہرے علم کے مالک اور سب سے زیادہ بے تکلف.. اللہ نے انہیں اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے منتخب کیا.. لہٰذا ان کا فضل پہچانو اور ان کے نقش ِ قدم کی پیروی کرو اور جس قدر ممکن ہو ان کے اخلاق اور سیرت سے تمسک کرو کیونکہ وہ لوگ ہدایت کے صراطِ مستقیم پر تھے.." (رزین ، مشکوٰۃ ۱/۳۲)


پھر ہمارے پیغمبر رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی ایسی معنوی اور ظاہری خوبیوں ، کمالات ، خداداد صلاحیتوں ، مجد وفضائل مکارمِ اخلاق اور محاسن ِ اعمال سے متصف تھے کہ دل خود بخود آپ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور جانیں قربان ہوا چاہتی تھیں.. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے جونہی کوئی کلمہ صادر ہوتا , صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی بجا آوری کے لیے دوڑ پڑتے اور ہدایت ورہنمائی کی جو بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرما دیتے , اسے حرزِجان بنانے کے لیے گویا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی بازی لگ جاتی..


اس طرح کی کوشش کی بدولت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے کے اندر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے جو تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھرپور معاشرہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصے تک زمانے کی چکی میں پِس کر اور اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مار کر تھک جانے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا.. اس نئے معاشرے کے عناصر ایسی بلند وبالا تعلیمات کے ذریعے مکمل ہوئے جس نے پوری پامردی کے ساتھ زمانے کے ہر جھٹکے کا مقابلہ کرکے اس کا رُخ پھیر دیا اور تاریخ کا دھارا بدل دیا..


الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کے درمیان عقیدے ، سیاست اور نظام کی وحدت کے ذریعے ایک نئے اسلامی معاشرے کی بنیادیں استوار کرلیں تو غیر مسلموں کے ساتھ اپنے تعلقات منظم کرنے کی طرف توجہ فرمائی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ ساری انسانیت امن وسلامتی کی سعادتوں اور برکتوں سے بہرہ ور ہو اور اس کے ساتھ ہی مدینہ اور اس کے گرد وپیش کا علاقہ ایک وفاقی وحدت میں منظم ہوجائے.. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رواداری اور کشادہ دلی کے ایسے قوانین مسنون فرمائے جن کا اس تعصب اور غلو پسندی سے بھری ہوئی دنیا میں کوئی تصور ہی نہ تھا..


جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں , مدینے کے سب سے قریب ترین پڑوسی یہود تھے.. یہ لوگ اگرچہ درپردہ مسلمانوں سے عداوت رکھتے تھے لیکن انہوں نے اب تک کسی محاذ آرائی اور جھگڑے کا اظہار نہیں کیا تھا.. اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا جس میں انہیں دین ومذہب اور جان ومال کی مطلق آزادی دی گئی تھی اور جلاوطنی , ضبطی , جائیداد یا جھگڑے کی سیاست کا کوئی رُخ اختیار نہیں کیا گیا تھا..


یہ معاہدہ اسی معاہدے کے ضمن میں ہوا تھا جو خود مسلمانوں کے درمیان باہم طے پایا تھا اور جس کا ذکر قریب ہی گزر چکا ہے.. آگے اس معاہدے کی اہم دفعات پیش کی جارہی ہیں..


1.. بنوعوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی امّت ہوں گے.. یہود اپنے دین پر عمل کریں گے اور مسلمان اپنے دین پر.. خود ان کا بھی یہی حق ہوگا اور ان کے غلاموں اور متعلقین کا بھی اور بنوعوف کے علاوہ دوسرے یہود کے بھی یہی حقوق ہوں گے..


2.. یہود اپنے اخراجات کے ذِمے دار ہوں گے اور مسلمان اپنے اخراجات کے..


3.. جو طاقت اس معاہدے کے کسی فریق سے جنگ کرے گی سب اس کے خلاف آپس میں تعاون کریں گے..


4.. اس معاہدے کے شرکاء کے باہمی تعلقات خیر خواہی ، خیر اندیشی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہوں گے ، گناہ پر نہیں..


5.. کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہ ٹھہرے گا..


6.. مظلوم کی مدد کی جائے گی..


7.. جب تک جنگ بر پا رہے گی یہود بھی مسلمانوں کے ساتھ خرچ برداشت کریں گے..


8.. اس معاہدے کے سارے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت وخون حرام ہوگا..


9.. اس معاہدے کے فریقوں میں کوئی نئی بات یا جھگڑا پیدا ہوجائے جس میں فساد کا اندیشہ ہوتو اس کا فیصلہ اللہ عزّوجل اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے..


10.. قریش اور اس کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی..


11.. جو کوئی یثرب پر دھاوا بول دے اس سے لڑنے کے لیے سب باہم تعاون کریں گے اور ہر فریق اپنے اپنے اطراف کا دفاع کرے گا..


12.. یہ معاہدہ کسی ظالم یا مجرم کے لیے آڑ نہ بنے گا..


(ابن ہشام ۱/ ۵۰۳ ، ۵۰۴)


اس معاہدے کے طے ہوجانے سے مدینہ اور اس کے اطراف ایک وفاقی حکومت بن گئے جس کا دارالحکومت مدینہ اور جس کے سربراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور جس میں کلمہ نافذہ اور غالب حکمرانی مسلمانوں کی تھی اور اس طرح مدینہ واقعتا اسلام کا دارالحکومت بن گیا..


امن وسلامتی کے دائرے کو مزید وسعت دینے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آئندہ دوسرے قبائل سے بھی حالات کے مطابق اسی طرح کے معاہدے کیے جن میں سے بعض بعض کا ذکر آگے چل کر آئے گا..


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🌴================🌴

❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..

🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..

💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ


👉🏻Forward To All Groups Friends And Family Members For Sadq e Jaria



 

Post a Comment

0 Comments