📚تفسیـــر القـــرآن الکریـــم بالأحـــادیث النبـــویۃ
📖سبــــق نمبــــر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔➌➑
🌿ســـورة البقـــرہ آیت نمبــــر ۔۔۔۔۔۔➑➑
┄┅════❁🌹﷽🌹❁════┅┄
🌈وَقَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌؕ بَل لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفۡرِهِمۡ فَقَلِيۡلًا مَّا يُؤۡمِنُوۡنَ۞
ترجمہ:
🌿اور انھوں نے کہا ہمارے دل غلاف میں (محفوظ) ہیں، بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کردی، پس وہ بہت کم ایمان لاتے ہیں۔
─━•<☆⊰✿تفسیــــــــر✿⊱☆>•━─
🍃غُلْفٌ ۭ یہ ”أَغْلَفُ“ کی جمع ہے، جیسے ”اَحْمَرُ“ کی جمع ”حُمْرٌ“ ہے، یعنی جو چیز غلاف (پردے) میں ہو، جیسے : ”رَجُلٌ اَغْلَفُ“ ”وہ آدمی جس کا ختنہ نہ ہوا ہو۔“ اور ”سَیْفٌ اَغْلَفُ“ وہ تلوار جو غلاف میں ہو۔
👈🏻یہود کہا کرتے تھے کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں، ان پر تمہاری باتوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا،
فرمایا :
💫(وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ)
[ حٰم السجدۃ : 5]
”اور انھوں نے کہا ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔“
👈🏻بعض علمائے تفسیر نے ”غُلْفٌ“ کے یہ معنی کیے ہیں کہ ہمارے دل علم و حکمت سے پر ہیں، کسی دوسرے علم کی ان میں گنجائش نہیں ہے۔
✅اس پر قرآن نے فرمایا کہ حق سے متاثر نہ ہونا فخر کی بات نہیں ہے، یہ تو اللہ کی لعنت کی نشانی ہے۔ (ابن کثیر)
🍃فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ ’
ما“ تاکید کے لیے ہے، اس لیے ”بہت کم“ ترجمہ کیا گیا۔
”بہت کم ایمان لاتے ہیں“
کا ایک معنی یہ ہے کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایمان لاتے ہیں، جیسے عبداللہ بن سلام ؓ وغیرہ۔
اس صورت میں یہ ”يُؤْمِنُوْنَ“ کی ضمیر سے حال ہے۔
🍃دوسرا یہ کہ وہ بہت کم ایمان لاتے ہیں پورا ایمان نہیں لاتے، بعض آیات اور بعض انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اور بعض سے کفر کرتے ہیں، اس صورت میں یہ ایمان محذوف کی صفت ہے۔
👈🏻”قَلِیْلاً“ بعض اوقات عدم کے لیے بھی آتا ہے کہ وہ ایمان لاتے ہی نہیں۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─
0 Comments