Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 65 // بیٔر رومہ // صُفّہ اور اصحاب صُفّہ // ازواج مطہرات کے حجرے

❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا.........


 🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻


قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔➏➎ 


🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️


اس سے پہلے کہ ہم کفار اور مسلمانوں کی دن بدن بڑھتی کشا کش کے مزید واقعات بیان کریں , چند ضمنی لیکن بہت اہم واقعات کا تذکرہ ضروری ہے..


بیٔر رومہ..

____


مدینہ کے اکثر کنووں کا پانی کھارا تھا جس کی وجہ سے مہاجرین کو پینے کے لئے میٹھا پانی نہیں ملتا تھا.. وہاں ایک بڑا کنواں "بیٔر رومہ" نام کا تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا جو اس کا پانی مسلمانوں کو بیچا کرتا تھا.. یہ پانی بہت لطیف اور میٹھا تھا.. غریب مہاجرین کے لئے یہ پانی خرید کر پینا بڑا دشوار تھا.. اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کنویں کو خریدنے کی ترغیب دی اور اس کے خریدار کو جنت کی بشارت دی.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کو سو اونٹوں یا بارہ ہزار درہم کے عوض یہودی سے نصف کنواں خرید کر وقف کردیا.. نصف حصہ پر پانی لینے والوں کا اژدحام رہنے سے یہودی نے بقیہ نصف کنواں بھی آٹھ ہزار درہم میں بیچ دیا..


صُفّہ اور اصحاب صُفّہ..

______


مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بنا کر اس پر کھجور کے پتوں کا چھپر ڈال دیا گیا.. اسے "صُفّہ" کہتے تھے.. قدیم مورخین نے اسے ظِلّہ بھی لکھا ہے.. یہ ایک طرح سے اقامتی درس گاہ تھی.. یہاں دن میں تعلیم دی جاتی اور رات میں بے آسرا مہاجر شب بسر کرتے.. یہ اُن مسلمانوں کی قیام گاہ تھی جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم دین ، تبلیغ اسلام ، جہاد اور دوسری اسلامی خدمات کے لئے وقف کر دی تھی.. حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اس کے منتظم اعلیٰ اور نگراں تھے.. اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ صحابہ کرام بھی درس و تدریس کا فرض انجام دیتے تھے..


صُفّہ کی درس گاہ سے بڑے بڑے باکمال صحابہ نکلے جن میں مقیم اور غیر مقیم دونوں شامل ہیں جیسے فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور امام المحدثین حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ.. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستّر (70) اصحاب صُفّہ میں سے کسی ایک کو بھی نہ پایا جس کے پاس لمبی چادر ہو.. یا تہ بند ہوتی تھی یا چھوٹی چادر جس کا سرا وہ اپنی گردن سے باندھ لیتے تھے اور دوسرا ہاتھ سے تھام لیتے تھے کہ کہیں ستر نہ کھل جائے.. یہ چادر کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتی تھی اور کسی کے ٹخنوں تک.. یہ اپنی بے سرو سامانی کی وجہ سے زراعت یا تجارت نہ کر سکتے تھے مگر کچھ لوگ جنگل میں نکل جاتے اور لکڑیاں چن کر اور انہیں بیچ کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے کھانے پینے کا سامان مہیا کرتے.. تاہم کئی سو صحابہ کی یہ جماعت اس طرح اپنی معاشی ضروریات پوری نہ کر سکتی تھی.. اس لئے فقر و فاقہ کی زندگی گزارتے مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے روادار نہ ہوتے بلکہ دوسروں پر اپنی محتاجی و پریشانی کا اظہار بھی نہ ہونے دیتے.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی فکر سے کس طرح آزاد رہ سکتے تھے.. ایک جماعت کو خود اپنا مہمان بنا لیتے اور اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے اور بقیہ کو دوسرے مالدار صحابہ کے حوالہ کر دیتے..


(زرقافی , ج  ا , بحوالہ سیرت طیبہ)


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رات گئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا.. "میرے اصحاب کو بلا لو.." ان میں سے اکثر سو گئے تھے.. میں نے ایک ایک کو جگا یا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بڑے پیالہ میں جَو کا تیار کیا ہوا کھانا سامنے رکھ دیا اور اس پر ہاتھ رکھ کر برکت کی دعا فرمائی.. ہم سب نے اسے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی وہ اتنا کا اتنا ہی باقی رہا..


آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں بھی ان کی تسلی اور دل دہی فرماتے رہتے.. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل صُفّہ کی محتاجی اور پریشان حالی کو دیکھا تو ان کو اس طرح تسلی دی..


" اے اہلِ صُفّہ بشارت ہو.. ( تم ہی نہیں ) میری اُمت میں سے جو کوئی فقر و فاقہ میں صبر و شکر کی زندگی اس طرح بسر کرے گا جس طرح تم کرتے ہو , وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا.."


اصحاب صُفّہ کی مجموعی تعداد جو مختلف اوقات میں صُفّہ میں مقیم رہی , چار سو کے قریب ہے..


ازواج مطہرات کے حجرے..

_______


مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس سے متصل دو حجرے بنائے گئے جن میں سے ایک حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا اور دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے تھا.. یہ حجرے کچی اینٹوں سے بنائے گئے تھے.. ان کی چھتیں کھجور کے پتوں کی تھیں.. چھ یا سات ہاتھ چوڑے اور دس ہاتھ لمبے تھے.. اونچائی اتنی تھی کہ آدمی کھڑے ہو کر ہاتھ سے چھو سکتا تھا.. دروازوں پر سیاہ بالوں کے کمبل یا ٹاٹ کے پردے تھے.. مسجد سے متصل حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے مکانات تھے.. اس وقت تک حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عقد نکاح میں آچکی تھیں , اس لئے دو ہی حجرے بنائے گئے.. جب اور ازواج آتی گئیں تو اور کمرے بنتے گئے.. رفتہ رفتہ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ نے تمام مکان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نذر کر دیا..  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کا ایک دروازہ مسجد کی طرف تھا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دروازہ  سے مسجد میں تشریف لاتے اور جب اعتکاف میں ہوتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دھو دیتیں..


حجروں کی ترتیب..

______


ازواجِ مطہرات کے حجروں کی ترتیب یہ تھی.. حضرت اُم سلمہ ، حضرت اُم حبیبہ ،  حضرت زینب ،  حضرت جویریہ ،  حضرت میمونہ ،  حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہم کے مکانات شامی جانب تھے اور حضرت عائشہ ,  حضرت صفیہ , حضرت سودہ رضی اللہ عنہم مقابل جانب تھیں..


(طبقات بن سعد ، سیرۃ البنی)


جس وقت حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ماریہ  قبطیہ رضی اللہ عنہا حرم مبارک میں داخل ہوئیں تو اس وقت جو حجرے موجود تھے , ان میں کوئی خالی نہ تھا.. اس لئے ان کے قیام کا علحٰدہ انتطام کیا گیا تھا اور وہ مدینہ کے مضافات میں ایک باغیچہ میں رہتی تھیں..


(ضیاء الدین کرمانی ، ابدی پیغام کے آخری پیغامبر)


نماز کی رکعتوں میں اضافہ..

_______


ہجرت سے پہلے نماز مغرب کے سوا ہر نماز میں صرف دو رکعتیں فرض تھیں.. مدینہ آنے کے بعد ایک ماہ گزرا تو ظہر ، عصر اور عشاء میں دو دو رکعت کے اضافہ کا حکم آیا.. اوقات نماز کے بارے میں روایت ہے کہ نماز فجر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے پڑھی تھی.. ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بطور شکرانہ پڑھی تھی.. اس لئے کہ نمرود کے آتش کدہ کو اللہ تعالیٰ نے جب گلزار بنایا , اس وقت دوپہر کا وقت تھا.. نماز عصر سب سے پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ادا کی تھی.. اس لئے کہ ان کے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کے بعد ان کے صحیح و سلامت ہونے کی اطلاع حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت یعقوب کو دی تو اس وقت عصر کا وقت تھا.. مغرب کی نماز پہلے داؤد علیہ السلام نے ادا کی تھی.. اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ جب قبول کی , اس وقت مغرب کا وقت تھا..   حضرت داؤد نے شکرانہ میں نماز مغرب پڑھی.. حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آئے تو رات کا وقت تھا.. انھوں نے شکرانے میں پہلی نماز عشاء ادا کی.. اللہ تعالیٰ نے معراج کی شب میں ان پانچوں نمازوں کو اُمت محمدی کے لئے فرض کیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ خلاصہ ٔ عبادات انبیاء ہے.. (واللہ اعلم)


(مصباح الدین شکیل , سیرت احمد مجتبیٰ)


الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری


حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ پہلے یہودی ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا.. حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا نام اسلام قبول کرنے سے قبل "حصین بن سلام بن حارث" تھا اور ان کی کنیت ابو یوسف تھی.. حصین بن سلام تورات کے عالم تھے.. انہوں نے تورات میں یہ پڑھا تھا کہ مکہ میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے.. دل میں ہر وقت یہی خیال رہتا تھا کہ نئے نبی کی زیارت کا کب شرف حاصل ہوگا..

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن مجھے پتہ چلا کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے ہیں اور وادی قباء میں قیام پذیر ہیں..

”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو لوگ بھاگ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.. ان بھاگ کر حاضر ہونے والوں میں ، میں بھی تھا.. جب میں نے آپ کو دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا.."

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا..

1.. قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے..؟

2.. وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا..؟

3.. کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے..؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آ کر اس کی خبر دی ہے..

"قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی..

سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا ، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے . وہ ہو گا..

اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے.. اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے.."

(یہ سن کر) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے.. "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.."

پھر عرض کیا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے.. یہود بخوبی جانتے ہیں کہ میں ان کا رئیس ہوں اور ان کے رئیس کا صاحبزادہ ہوں اور ان کا جیّد عالم ہوں اور ان کے جیّد عالم کا بیٹا ہوں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو بلا کر میرے بارے میں پوچھئے.. بشرطیکہ ان کو میرے مسلمان ہوجانے کا علم نہ ہو.. اگر ان کو میرے مسلمان ہونے کا علم ہوگیا تو وہ میرے خلاف بہتان تراشی کریں گے.."

چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے پاس پیغام بھیجا.. وہ آئے تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تلقین کی.. "اے گروہ یہود ! افسوس.. ﷲ سے ڈرو.. اس کی قسم جس کے بغیر کوئی معبود نہیں ! تم جانتے ہو کہ میں برحق رسول ﷲ ہوں اور تمھارے پاس دین حق لایا ہوں.."

انھوں نے کہا.. "ہم نہیں جانتے.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات تین بار کہی.. پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا.. "تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں..؟"

سارے یہودی کہنے لگے.. "وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں.. ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں.."

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا.. "اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا..؟"

انہوں نے کہا.. "اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے.. بخدا وہ مسلمان نہ ہوگا.."

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اے ابن سلام باہر آئیے.."

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا.. "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں.. اے معتبر یہود ! ﷲ سے ڈرو.. وﷲ تم خوب جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷲ کے رسول ہیں اور آپ دین حق لے کر آئے ہیں.."

انھوں نے کہا.. "تو جھوٹ بولتا ہے.."

اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے.. وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے.. چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مجلس سے نکال دیا..


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🌴================🌴

❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..

🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..

💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ 

Post a Comment

0 Comments