Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 55

 ❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر

البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا


قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔➎➎


🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️


پچھلے صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ کفارِ مکہ نے مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے اور جب مسلمانوں نے ہجرت شروع کی تو ان کے خلاف کیسی کیسی کارروائیاں کی تھیں جن کی بنا پر وہ مستحق ہوچکے تھے کہ ان کے اموال ضبط کر لیے جائیں اور ان پر بزن بول دیا جائے.. مگر اب بھی ان کی حماقت کا سلسلہ بند نہ ہوا اور وہ اپنی ستم رانیوں سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر ان کا جوشِ غضب اور بھڑک اُٹھا کہ مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹ نکلے ہیں اور انہیں مدینے میں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے..


چنانچہ انہوں نے عبداللہ بن اُبی کو _ جو ابھی تک کھلم کھلا مشرک تھا , اس کی حیثیت کی بنا پر ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ وہ انصار کا سردار ہے (کیونکہ انصار اس کی سربراہی پر متفق ہوچکے تھے اور اگر اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری نہ ہوئی ہوتی تو اس کو بادشاہ بھی بنا لیے ہوتے..) مشرکین نے اس خط میں عبداللہ بن اُبیّ اور اس کے مشرک رفقاء کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک لفظوں میں لکھا..


''آپ لوگوں نے ہمارے آدمی کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجیے یا اسے نکال دیجیے یا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کردیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کر ڈالیں گے..'' (ابوداؤد : باب خبر النضیر ۲/۱۵۴)


اس خط کے پہنچتے ہی عبداللہ بن اُبیّ مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ پڑا.. اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے.. چنانچہ جب یہ خط عبداللہ بن اُبی اور اس کے بت پرست رفقاء کو موصول ہو ا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے..


جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا.. ''قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے.. تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو , قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے.. تم اپنے بیٹو ں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو..؟"


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات سن کر لوگ بکھر گئے.. (ابوداؤد: باب مذکورہ ۲/ ۵۶۳)


اس وقت تو عبداللہ بن اُبی جنگ کے ارادے سے باز آگیا کیونکہ اس کے ساتھی ڈھیلے پڑ گئے تھے یا بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی لیکن حقیقت میں قریش کے ساتھ اس کے روابط درپردہ قائم رہے.. کیونکہ مسلمان اور مشرکین کے درمیان شَر وفساد کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتا تھا.. پھر اس نے اپنے ساتھ یہود کو بھی ساتھ رکھا تھا تاکہ اس معاہدے میں ان سے بھی مدد حاصل کرے.. لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت تھی جو رہ رہ کر شَرّوفساد کی بھڑ کنے والی آگ بجھا دیا کرتی تھی..


الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..


اس کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کے لیے مکہ گئے اور اُمَیّہ بن خلف کے مہمان ہوئے.. انہوں نے اُمیہ سے کہا.. ''میرے لیے ذرا کوئی خلوت کا وقت دیکھو.. میں بیت اللہ کا طواف کر لوں..''

اُمیّہ دوپہر کے قریب انہیں لے کر نکلا تو ابوجہل سے ملاقات ہوگئی.. اس نے (اُمیہ کو مخاطب کرکے) کہا.. "ابو صفوان ! تمہارے ساتھ یہ کون ہے..؟" اُمیہ نے کہا.. "یہ سعد ہیں.."

ابوجہل نے سعد رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا.. ''اچھا ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑے امن واطمینان سے طواف کررہے ہو حالانکہ تم لوگوں نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور یہ زعم رکھتے ہو کہ ان کی نصرت واعانت بھی کرو گے.. سنو ! اللہ کی قسم ! اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامت پلٹ کر نہ جا سکتے تھے..''

اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہا نے بلند آواز میں کہا.. ''سن ! اللہ کی قسم ! اگر تو نے مجھ کو اس سے روکا تو میں تجھے ایسی چیز سے روک دوں گا جو تجھ پر اس سے بھی زیادہ گراں ہوگی..'' (یعنی اہل مدینہ کے پاس سے گزرنے والا تیرا تجارتی راستہ..)

(بخاری ، کتاب المغازی ۲/۵۶۳)

پھر قریش نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا.. ''تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کرنکل آئے.. ہم یثرب ہی پہنچ کر تمہارا ستیاناس کر دیتے ہیں..''

(رحمۃ للعالمین ۱/۴۰۴)

اور یہ محض دھمکی نہ تھی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنے مؤکد طریقے پر قریش کی چالوں اور بُرے ارادوں کا علم ہوگیا تھا کہ آپ یا توجاگ کر رات گزارتے تھے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہرا دیتے.. چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مدینہ آنے کے بعد ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ رہے تھے کہ ہمیں ہتھیار کی جھنکار سنائی پڑی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "کون ہے..؟'' جواب آیا.. ''سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ)..'' فرمایا.. "کیسے آنا ہوا..؟" بولے.. ''میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خطرے کا اندیشہ ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں پہرہ دینے آگیا.." اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دُعا دی ، پھر سو گئے..

(صحیح مسلم , ۲/۲۸۰ ، صحیح بخاری , ۱/۴۰۴)

یہ بھی یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام بعض راتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اور دائمی تھا.. چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا.. یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی..

"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا.." (۵: ۶۷)

تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبے سے سر نکالا اور فرمایا.. ''لوگو ! واپس جاؤ.. اللہ عزّوجل نے مجھے محفوظ کردیا ہے.."

(جامع ترمذی : ابواب التفسیر ۲/۱۳۰)

پھر یہ خطرہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تک محدود نہ تھا بلکہ سارے ہی مسلمانوں کو لاحق تھا.. چنانچہ حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رُفقاء مدینہ تشریف لائے اور انصار نے انہیں اپنے یہاں پناہ دی تو سارا عرب اُن کے خلاف متحد ہوگیا.. چنانچہ یہ لوگ نہ ہتھیار کے بغیر رات گزارتے تھے اور نہ ہتھیار کے بغیر صبح کرتے تھے..


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🌴================🌴

❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..

🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..

💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ

Post a Comment

0 Comments