Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 48


❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا.........



 🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻

قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔㊽

🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️

8 ربیع الاول 14 نبوت یعنی 1 ہجری مطابق 23 ستمبر 622ء بروز دوشنبہ یہ مقدس قافلہ قبا پہنچا.. مکہ سے قبا تک کا سفر آٹھ روز میں طے ہوا.. اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا آغاز 9 ربیع الاول 41 عام الفیل سے مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق آپ کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے.. البتہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا آغاز رمضان 41 عام الفیل سے مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق بارہ سال پانچ مہینہ اٹھارہ دن یا بائیس دن ہوئے تھے..

قبا کی بستی مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں قبیلہ اوس کے خاندان آباد تھے.. ان میں سب سے ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا جس کے سردار اس وقت حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ تھے..

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مسلمانانِ مدینہ نے مکہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی کی خبرسن لی تھی اس لیے لوگ روزانہ صبح ہی صبح نکل جاتے تھے اور شام تک ایک سیاہ چٹان پر جسے "حرّہ العصبہ" کہتے ہیں ' آ کر بیٹھ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ تکتے رہتے.. جب دوپہر کو دھوپ سخت ہوجاتی تو واپس پلٹ آتے..

ایک روز طویل انتظار کے بعد واپس پلٹ کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے کہ ایک یہودی اپنے کسی ٹیلے پر کچھ دیکھنے کے لیے چڑھا.. کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقاء سفید کپڑوں میں ملبوس جن سے چاندنی چھٹک رہی تھی ' تشریف لارہے ہیں.. اس نے بیخود ہوکر نہایت بلند آواز سے کہا.. "عرب کے لوگو ! یہ رہا تمہارا نصیب ! جس کا تم انتظار کررہے تھے.."

یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیاروں کی طرف دوڑ پڑے اور ہتھیار سے سج دھج کر استقبال کے لیے امنڈ پڑے اور حرہ کی پشت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا..

(صحیح بخاری ۱/۵۵۵)

ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عمرو بن عوف میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی.. انصار ہر طرف سے جوق در جوق آتے اور نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے جوش عقیدت کے ساتھ سلام عرض کرتے.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل کر تحیۂ نبوت پیش کیا اور گردوپیش پروانوں کی طرح جمع ہوگئے.. اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سکینت چھائی ہوئی تھی اور یہ وحی نازل ہورہی تھی..

فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِ‌يلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ‌ (۶۶: ۴)

''اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مددگارہیں..''

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ داہنے جانب مڑے اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قباء میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام فرمایا.. یہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا.. حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے مکان میں حضرت ابو عبیدہ , حضرت مقداد , حضرت خبّاب , حضرت سہیل , حضرت صفوان , حضرت عیاض , حضرت وہب بن سعد , حضرت معمر بن ابی برح , حضرت عمیر بن عوف رضی اللہ عنہم پہلے سے مقیم تھے.. ابن کثیر کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے قبل ہی حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ مسلمان ہوچکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں آنے کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے..

لوگوں سے ملاقات حضرت سعد بن خشیمہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر ہوتی.. یہ مکان "منزل العزآب" (کنواروں کا گھر) کے نام سے مشہور تھا.. اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھے.. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چپ چاپ بیٹھے تھے.. انصار کے جو لوگ آتے تھے جنہوں نے رسول اللہ کو دیکھا نہ تھا ' وہ سیدھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے.. یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دھوپ آگئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چادر تان کر آپ پر سایہ کیا.. تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ پڑا تھا.. یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نظیر سرزمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی.. آج یہود نے بھی "حبقوق نبی" کی اس بشارت کا مطلب دیکھ لیا تھا 'کہ...

"اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا.."

(زاد المعاد ۲/۵۴ .. صحیح بخاری ۱/۵۵۵ .. کتاب بائبل , صحیفہ حبقوق ۳/۳)

ادھر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جو امانتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں ' انہیں ادا کرکے پیدل ہی مدینہ کا رخ کیا اور قباء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آ ملے اور حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام فرمایا..

صحیح بخاری کے بموجب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام قبا میں چودہ روز رہا.. یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا کام مسجد کا تعمیر کرانا تھا.. حضرت کلثوم رضی اللہ عنہ کی ایک افتادہ زمین تھی جہاں کھجوریں سکھائی جاتی تھیں.. یہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے مسجد قبا کی بنیاد ڈالی اور اس میں نماز بھی پڑھی..

مسجد قبا اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا.. سب مسلمانوں نے جوش وخروش کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا.. خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنی عادت کے مطابق عام مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور پتھروں کو اٹھانے اور ردّے جمانے میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے.. یہی وہ مسجد ہے جس کی شان میں قرآن مجید کی سورۂ توبہ کی ۱۰۸ ویں آیت میں فرمایا گیا..

"(اے پیغمبر) تم اس (نام نہاد) مسجد (ضرار) میں کبھی (نماز کے لئے) کھڑے نہ ہونا البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ واقعی اس لائق ہے کہ تم اس میں (نماز کے لئے) کھڑے ہو.. اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اﷲ پاک صاف رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے..

(سورۂ توبہ : ۱۰۸)

اس شرف کی بناء پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ سے ہر ہفتہ کو قباء تشریف لایا کرتے تھے.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہفتہ میں دو دن تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کے خس و خاشاک دور کرکے اور جاروب کشی کرکے برکت اندوزی فرماتے تھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

قبا میں چودہ روز قیام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 22 ربیع الاول 14 نبوت مطابق 8 اکٹوبر 622ء بروز جمعہ کوچ کا ارادہ ظاہر فرمایا.. عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کے قبیلہ والوں نے عرض کیا.. "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہم سے کوئی خطا سر زد ہوئی جس کی وجہ سے آپ ہم سے ناراض ہو کر یہاں سے تشریف لے جارہے ہیں..؟ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان.. آپ یہیں قیام فرمائیے.."

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "مجھے آگے جانے کا حکم ہوا ہے.." چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے.. جب قبیلہ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں پہنچے تو نماز جمعہ کا وقت ہو چکا تھا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں مختصر قیام کرکے مسجد غیب میں نماز جمعہ ادا فرمائی جو بعد میں مسجد جمعہ کے نام سے مشہور ہوئی..

یہ تاریخ ِ اسلام کا پہلا جمعہ تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ادا ہوا جس میں شرکاء کی تعداد (100) تھی.. نماز سے قبل آپ نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا.. اس خطبہ میں آپ نے اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری پر زور دیا اور نیک عملی کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی.. اس خطبہ میں اہل مکہ کے مظالم کی شکایت کے متعلق ایک حرف بھی نہ تھا.. نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری آگے بڑھی.. (سیرت طیبہ)

جمعہ کے بعد نبی مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دن سے اس شہر کا نام یثرب کے بجائے "مدینۃ الرسول" (شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑگیا جسے مختصراً مدینہ کہا جاتا ہے.. یہ نہایت تابناک تاریخی دن تھا.. گلی کوچے تقدیس وتحمید کے کلمات سے گونج رہے تھے اور انصار کی بچیاں خوشی ومسرت سے ان اشعار کے نغمے بکھیر رہی تھیں..

طلـع البـــــدر عـلـیـنـــــــــا مـــــــن ثنیــات الـوداع
وجــب الشکـــــر علینــــــــا مـــــا دعــا للــــــہ داع
أیــہــا الـــمـبـعــوث فـیـنـــا جـئـت بـالأمـر الـمـطاع

ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا..
کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا..

ہے اطاعت تیرے حکم کی بھیجنے والا ہے تیرا کبریا..

انصار اگرچہ بڑے دولت مند نہ تھے لیکن ہرا یک کی یہی آرزو تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے یہاں قیام فرمائیں.. چنانچہ آپ انصار کے جس مکان یا محلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑلیتے اور عرض کرتے کہ تعداد وسامان اور ہتھیار وحفاظت فرشِ راہ ہیں , تشریف لائیے.. مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ اونٹنی کی راہ چھوڑدو.. یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے.. چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اور اس مقام پر پہنچ کر بیٹھی جہاں آج مسجد نبوی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے نہیں اترے.. یہاں تک کہ وہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی.. پھرمڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ بیٹھ گئی.. اس کے بعد آپ نیچے تشریف لائے..

یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ننہیال والوں یعنی بنو نجار کا محلہ تھا.. آپ کے پردادا ہاشم نے اس قبیلہ کی خاتون سلمیٰ بن عمرو سے نکاح کیا تھا جن سے عبدالمطلب پیدا ہوئے تھے.. یہ اونٹنی کے لیے محض توفیق الٰہی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ننہیال میں قیام فرماکر ان کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے.. اب بنونجار کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض معروض شروع کی لیکن ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے لپک کر کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئے.. اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے.. "آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ہے.." ادھر حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے آکر اونٹنی کی نکیل پکڑ لی.. چنانچہ یہ اونٹنی انھی کے پاس رہی.. (زاد المعاد 2/55 , ابن ہشام 1/494.495)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے مکان تشریف لے گئے جو دو منزلہ تھا.. حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خواہش کی کہ اوپری منزل میں قیام فرمائیں لیکن لوگوں سے ملاقات میں آسانی کی غرض سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیچے کی منزل میں رہنا پسند فرمایا اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ اوپری منزل میں رہنے لگے.. دونوں میاں بیوی کو یہ احساس تکلیف دہ رہتا کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے عین نیچے نہ ہوں.. اس لئے دونوں کونوں میں پہنچ جاتے اور جاگتے رہتے.. جب دونوں نے اپنی حالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرکے خواہش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوپری منزل میں منتقل ہو جائیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوپری منزل میں اقامت پذیر ہوئے..

دوران قیام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دونوں وقت کا کھانا حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ لے جاتے اور جو کچھ بچ رہتا , دونوں میاں بیوی کھاتے.. صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا تناول نہیں فرمایا اور وہ واپس آگیا.. یہ دیکھتے ہی حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بے چین ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور تناول طعام نہ کرنے کی وجہ دریافت کی.. آپ نے فرمایا کہ کھانے میں لہسن تھا.. حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا لہسن حرام ہے تو آپ نے فرمایا.. "نہیں _ بلکہ میں اس کی بو اس وجہ سے نہیں پسند کرتا کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے اس لئے پیاز اور لہسن کی بو سے احتیاط کرتا ہوں.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کی حالت مجھ جیسی نہیں ہے اس لئے تم اسے کھا سکتے ہو.."  (ابن ہشام بحوالہ سیرت احمد مجتبٰی)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ روانہ کیا تاکہ اہل و عیال کو لے آئیں.. چند دنوں کے بعد آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سَوْدَہ اور آپ کی دونوں صاحبزایاں حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم اور حضرت اسامہ بن زید اور ام ایمن رضی اللہ عنہم بھی آگئیں.. ان سب کو حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آل ابی بکر کے ساتھ جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں , لے کر آئے تھے.. البتہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا , حضرت ابوالعاص (رضی اللہ عنہ) کے پاس باقی رہ گئیں.. حضرت ابو العاص ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے.. انہوں نے آنے نہیں دیا اور وہ جنگ ِ بدر کے بعد تشریف لاسکیں.. (زاد المعاد ۲/۵۵)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وبا خیز جگہ تھی.. وادیٔ بطحان سڑے ہوئے پانی سے بہتی تھی.. ان کا یہ بھی بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بخار آگیا.. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا.. "اے اللہ ! ہمارے نزدیک مدینہ کو اسی طرح محبوب کر دے جیسے مکہ محبوب تھا یا اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی فضا ء صحت بخش بنا دے اور اس کے صاع اور مد (غلے کے پیمانوں) میں برکت دے اوراس کا بخار منتقل کرکے جحفہ پہنچادے.."(صحیح بخاری)

اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سن لی.. چنانچہ آپ کو خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک پراگندہ سر کالی عورت مدینہ سے نکلی اور مہیعہ یعنی جحفہ میں جا اتری.. اس کی تعبیر یہ تھی کہ مدینہ کی وباء جحفہ منتقل کردی گئی اور اس طرح مہاجرین کو مدینہ کی آب وہوا کی سختی سے راحت مل گئی.. یہاں تک حیات طیبہ کی ایک قسم اور اسلامی دعوت کا ایک دَور (یعنی مکی دَور) پورا ہوجاتا ہے.. آئندہ اختصار کے ساتھ مدنی دور پیش کیا جارہا ہے.. وباللہ التوفیق..

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌴================🌴
❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..
🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ

👉🏻Forward To All Groups Friends And Family Members For Sadq e Jaria

Post a Comment

0 Comments