📚تفسیـــر القـــرآن الکریـــم بالأحـــادیث النبـــویۃ
🌿ســـورة البقـــرہ آیت نمبــــر ۔۔۔۔۔۔➍➐
┄┅════❁🌹﷽🌹❁════┅┄
🌈ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالۡحِجَارَةِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَةً ؕ وَاِنَّ مِنَ الۡحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنۡهُ الۡاَنۡهٰرُؕ وَاِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخۡرُجُ مِنۡهُ الۡمَآءُؕ وَاِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَهۡبِطُ مِنۡ خَشۡيَةِ اللّٰهِؕ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ۞
ترجمہ:
🌿پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں اور بیشک پتھروں میں سے کچھ یقینا وہ ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بیشک ان سے کچھ یقینا وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں، پس ان سے پانی نکلتا ہے اور بیشک ان سے کچھ یقینا وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ اس سے ہرگز غافل نہیں جو تم کر رہے ہو۔
─━•<☆⊰✿تفسیــــــــر✿⊱☆>•━─
لغوی تفسیــــر:
قَسَتْ ”قَسَا یَقْسُوْ“ (ن) ناقص واوی سے واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے، جب ایک شے میں دوسری شے سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہو اور پھر کسی عارضے کے سبب وہ صلاحیت باقی نہ رہے تو عربی زبان میں اس پر ”اَلْقَاسِیْ“ کا لفظ بولا جاتا ہے۔
تفسیــــر
👈🏻یہی حال انسان کے دل کا ہے کہ اس میں دلائل و آیات سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے،
مگر جب مختلف اسباب کی بنا پر وہ صلاحیت باقی نہیں رہتی تو اثر قبول نہ کرنے میں اسے پتھر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی سرزنش فرمائی کہ عجیب کم بخت قوم ہو کہ مردے کا جی اٹھنا تک تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، مگر پھر بھی تم اپنے کفر اور سرکشی پر ڈٹے رہے اور تمہارے دل نرم ہونے کے بجائے اور سخت ہوگئے، جیسے پتھر، بلکہ اس سے بھی سخت۔
👈🏻اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب کا جیسا رویہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے،
چنانچہ ارشاد فرمایا :
🌹وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ
[ الحدید : 16 ]
🌿 ”اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنھیں ان سے پہلے کتاب دی گئی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔“ (ابن کثیر)
تفسیر اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً
یہاں ”أَوْ“ شک کے لیے نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کیا شک ہوسکتا ہے،
بلکہ ”بَلْ“ کے معنی میں ہے، یعنی وہ پتھر کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔
”قَسْوَۃٌ“ سے اسم تفضیل ”اَقْسَی“ آتا ہے، مگر مزید سختی کے اظہار کے لیے ”اَشَدُّ قَسْوَةً“ فرمایا،
ترجمہ میں اس کا خیال رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے نافرمان لوگوں کے دلوں کی سختی کو پتھروں کی سختی سے تشبیہ دینے کے بعد پتھروں کا شکوہ دور فرمایا کہ
👈🏻پروردگار ! ہم سخت ہی سہی، مگر اتنے بھی سخت نہیں کہ ان ظالموں کو ہم سے تشبیہ دی جائے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی نرمی کے بیان کے لیے ان کی تین قسمیں بیان فرمائیں۔
1’ اللہ کے ڈر سے“
اس کا تعلق پتھروں کی تینوں قسموں سے ہے۔
معلوم ہوا کہ پتھروں سے نہروں کا پھوٹ نکلنا،
ان کا پھٹ جانا
اور
ان سے پانی کا نکلنا
اور
ان کا گرپڑنا اللہ کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ پتھر تو بےجان چیز ہیں، وہ کیسے ڈرتے ہیں، تو جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل والی مخلوقات کے علاوہ ان میں بھی ایک شعور اور فہم رکھا ہے، جس کی حقیقت وہی جانتا ہے، اگر فلسفے کا مارا ہوا کوئی شخص انکار کرے تو کرے،
👈🏻اہل السنہ والجماعۃ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا :
💐وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ
[ بنی إسرائیل : 44 ]
🌿”اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔“
نــــوٹ👇🏻
اس آیت کی تفسیر جاری ہے
═════════════𖣔
💐
0 Comments