Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 36

 
❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا.........
قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔➌➏
🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️
غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 12 رمضان 2 ہجری مطابق 8 مارچ 624ء تقریباً تین سو جاں نثاروں کے ساتھ شہر سے نکلے.. ایک میل چل کر فوج کا جائزہ لیا.. جو کم عمر تھے واپس کر دئے گئے کہ ایسے پرخطر موقع پر بچوں کا کام نہیں.. عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایک کم سن بچہ تھے.. جب ان سے واپسی کو کہا گیا تو رو پڑے.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی.. عمیر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کم سن سپاہی کے گلے میں تلوار حمائل کر دی.. اب فوج کی کل تعداد (۳۱۳) تھی جس میں ساٹھ مہاجرین اور باقی انصار تھے.. چونکہ غیاب میں منافقین اور یہود کی طرف سے اطمینان نہ تھا اس لئے حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ مدینہ واپس جائیں.. عالیہ (مدینہ کی بالائی آبادی) پر عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا.. ان انتظامات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کی طرف بڑھے جدھر سے اہل مکہ کی آمد کی خبر تھی..
بدر دراصل ایک کنویں کا نام تھا جو اس نواح کے ایک سردار بدر بن حارث یا بدر بن کلدہ نے کھدوایا تھا لیکن بعد میں یہ ساری وادی بدر کے نام سے مشہور ہوگئی.. یہاں ہر سال میلہ بھی لگتا تھا.. یہ مدینہ منورہ سے تقریباً (80) میل کے فاصلہ پر ہے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو خبر رساں لبیسہ اور عدی کو آگے روانہ کر دیا تاکہ قریش کی نقل و حرکت کی خبر لائیں.. روحا ، منصرف ، ذات اجلال ، معلات ، ائیل سے گزرتے ہوئے 17 رمضان کو بدر کے قریب پہنچے.. خبر رسانوں نے خبر کی کہ قریش وادی کے دوسرے سرے تک آگئے ہیں.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہیں رک گئے اور فوجیں اتر پڑیں..
یہاں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیق غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لیا اور حود فراہمی اطلاعات کے لیے نکل پڑے.. ابھی دور ہی سے مکی لشکر کے کیمپ کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک بوڑھا عرب مل گیا..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے قریش اور محمد واصحابِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حال دریافت کیا.. دونوں لشکروں کے متعلق پو چھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی شخصیت پر پردہ پڑا رہے..
اس نے کہا.. "مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی فلاں روز نکلے ہیں.. اگر مجھے بتانے والے نے صحیح بتایا ہے تو آج وہ لوگ فلاں جگہ ہوں گے.." اور ٹھیک اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں اس وقت مدینے کا لشکر تھا.. "اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قریش فلاں دن نکلے ہیں.. اگر خبر دینے والے نے صحیح خبر دی ہے تو وہ آج فلاں جگہ ہوں گے.." اور ٹھیک اس جگہ کا نام لیا جہاں اس وقت مکے کا لشکر تھا..
اسی روز شام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کے حالات کا پتا لگانے کے لیے نئے سرے سے جاسوسی دستہ روانہ فرمایا.. اس کاروائی کے لیے مہاجرین کے تین قائد علی بن ابی طالب ، زُبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ہمراہ روانہ ہوئے.. یہ لوگ سیدھے بدر کے چشمے پر پہنچے.. وہاں دو غلام مکی لشکر کے لیے پانی بھر رہے تھے.. انہیں گرفتار کرلیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا.. اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے..
صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں سے حالات دریافت کیے.. انہوں نے کہا.. "ہم قریش کے سقے ہیں.. انہوں نے ہمیں پانی بھرنے کے لیے بھیجا ہے.." صحابہ کو یہ جواب پسند نہ آیا.. چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں کی ذرا سخت پٹائی کردی اور انہوں نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ ہم ابو سفیان کے آدمی ہیں (یعنی قافلے کے ساتھ ہیں).. اس کے بعد مارنے والوں نے ہاتھ روک لیا..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ناراضی سے فرمایا.. "جب ان دونوں نے صحیح بات بتائی تو آپ لوگوں نے پٹائی کردی اور جب جھوٹ کہا تو چھوڑ دیا.. اللہ کی قسم ! ان دونوں نے صحیح کہا تھا کہ یہ قریش کے آدمی ہیں.."
اس کے بعد آپ نے ان دونوں غلاموں سے فرمایا.. اچھا ! اب مجھے قریش کے متعلق بتاؤ.."
انہوں نے کہا.. "یہ ٹیلہ جو وادی کے آخری دہانے پر دکھائی دے رہا ہے , قریش اسی کے پیچھے ہیں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا.. "لوگ کتنے ہیں..؟"
انہوں نے کہا.. "بہت ہیں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا.. "تعداد کتنی ہے..؟"
انہوں نے کہا.. "ہمیں معلوم نہیں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "روزانہ کتنے اُونٹ ذبح کرتے ہیں.."
انہوں نے کہا.. "ایک دن نو اور ایک دن دس.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "تب لوگوں کی تعداد نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے.. 
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا.. "ان کے اندر معززین قریش میں سے کون کون ہیں..
انہوں نے کہا.. "ربیعہ کے دونوں صاحبزادے عتبہ اور شیبہ اور ابوالبختری بن ہشام ، حکیم بن حزام ، نوَفل بن خُوَیْلد ، حارث بن عامر ، طعیمہ بن عدی ، نضر بن حارث ، زمعہ بن اسود ، ابوجہل بن ہشام ، اُمیہ بن خلف.." اور مزید کچھ لوگوں کے نام گنوائے..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا.. ''مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے پاس لا کر ڈال دیا ہے..''
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.
قریش مکہ بڑے سرو سامان سے نکلے تھے.. ایک ہزار کی فوج تھی.. ایک سو سواروں کا رسالہ تھا.. سب روسائے قریش شریک تھے.. ابو لہب مجبوری سے نہ آسکا تھا , اس لئے اپنی طرف سے قائم مقام بھیج دیا تھا.. رسد کا یہ انتظام تھا کہ امرائے قریش باری باری ہر روز دس اونٹ ذبح کرتے اور لوگوں کو کھلاتے تھے..
قریش کو بدر کے قریب پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ ابو سفیان کا قافلہ خطرہ کی زد سے نکل گیا ہے تو قبیلہ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے.. باقی فوج آگے بڑھی اور مناسب موقعوں پر قبضہ کرلیا.. برخلاف اس کے مسلمانوں کی طرف چشمہ یا کنواں تک نہ تھا.. تائید ایزدی سے اسی رات بارش ہوئی جو مشرکین پر موسلا دھار برسی اور ان کی پیش قدمی میں رکاوٹ بن گئی لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر برسی اور زمین کو ہموار کر دیا.. اس کی وجہ سے ریت میں سختی آگئی اور قدم ٹکنے کے لائق ہوگئے.. قیام خوشگوار ہو گیا اور دل مضبوط ہوگئے.. جا بجا پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنائے گئے کہ غسل اور وضو کے کام آئیں..
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لشکر کو حرکت دی تاکہ مشرکین سے پہلے بدر کے چشمے پر پہنچ جائیں اور اس پر مشرکین کو مُسلط نہ ہونے دیں.. چنانچہ عشاء کے وقت آپ نے بدر کے قریب ترین چشمے پر نزول فرمایا.. اس موقعے پر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے ایک ماہر فوجی کی حیثیت سے دریافت کیا.. "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اس مقام پر آپ اللہ کے حکم سے نازل ہوئے ہیں کہ ہمارے لیے اس سے آگے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں یا آپ نے اسے محض ایک جنگی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار فرمایا ہے..؟"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ محض جنگی حکمتِ عملی کے طور پر ہے.."
انہوں نے کہا.. "یہ مناسب جگہ نہیں ہے.. آپ آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے قریب جو چشمہ ہو , اس پر پڑاؤ ڈالیں.. پھر ہم بقیہ چشمے پاٹ دیں گے اور اپنے چشمے پر حوض بنا کر پانی بھر لیں گے.. اس کے بعد ہم قریش سے جنگ کریں گے تو ہم پانی پیتے رہیں گے اور انہیں پانی نہ ملے گا.."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. ''تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا.." اس کے بعد آپ لشکر سمیت اُٹھے اور کوئی آدھی رات گئے دشمن کے سب سے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا.. پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حوض بنایا اور باقی تمام چشموں کو بند کردیا..
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چشمے پر پڑاؤ ڈال چکے تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ مسلمان آپ کے لیے ایک مرکزِ قیادت تعمیر کردیں تاکہ خدانخواستہ فتح کے بجائے شکست سے دوچار ہونا پڑ جائے یا کسی اور ہنگامی حالت سے سابقہ پیش آجائے تو اس کے لیے آپ پہلے ہی سے مستعد رہیں.. چنانچہ انہوں نے عرض کیا..
"اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک چھپر تعمیر کردیں جس میں آپ تشریف رکھیں گے اور ہم آپ کے پاس آپ کی سواریاں بھی مہیا رکھیں گے.. اس کے بعد دشمن سے ٹکر لیں گے.. اگر اللہ نے ہمیں عزت بخشی اور دشمن پر غلبہ فرمایا تو یہ وہ چیز ہوگی جو ہمیں پسند ہے.. اور اگر دوسری صورت پیش آگئی تو آپ سوار ہوکر ہماری قوم کے ان لوگوں کے پاس جا رہیں گے جو پیچھے رہ گئے ہیں.. درحقیقت آپ کے پیچھے اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ایسے لوگ رہ گئے ہیں کہ ہم آپ کی محبت میں ان سے بڑھ کر نہیں.. اگر انہیں یہ اندازہ ہوتا کہ آپ جنگ سے دوچار ہوں گے تو وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے.. اللہ ان کے ذریعے آپ کی حفاظت فرمائے گا.. وہ آپ کے خیر خواہ ہوں گے اور آپ کے ہمراہ جہاد کریں گے.."
اس پر رسول اللہ نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لیے دعائے خیر کی اور مسلمانوں نے میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر چھپر بنایا جہاں سے پورا میدانِ جنگ دکھائی پڑتا تھا.. آپ کے اس مرکزِ قیادت کی نگرانی کے لیے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی کمان میں انصار نوجوانوں کا ایک دستہ منتخب کردیا گیا..
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌴================🌴
❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..
🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ


Post a Comment

0 Comments