Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 26


❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا.........

قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔➋➏
🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزل مقصود مقام بدر تھا کیونکہ ابوسفیان کا قافلہ جس کاروانی شاہراہ سے آرہا تھا وہ مقام بدر سے گزرتی تھی اور دستور تھا کہ قافلے یہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالتے تھے.. یہ مقام بدر کوئی ایک میل لمبا اور اس سے کچھ کم چوڑا ایک میدان ہے جو ہر طرف بلند وبالا اور ناقابل عبور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے.. آنے جانے کے لیے ان پہاڑوں کے درمیان صرف تین یا چار راستے ہیں..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پلان غالباً یہ تھا کہ قافلہ یہاں اترپڑے.. اس کے بعد ان راستوں کو بند کرکے اسے گھیر لیا جائے.. اس صورت میں کوئی آدمی یا کوئی اونٹ بچ کر جانہیں سکتا تھا.. غالباً اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھیمی رفتار سے اور بدر کے رخ سے قدرے ہٹ کر جارہے تھے..
دوسری طرف قافلے کی صورت حال یہ تھی کہ ابو سفیان ( سردار قریش اور تاحال کافر تھے) جو اس کے نگہبان تھے ، حددرجہ محتاط تھے.. انہیں معلوم تھا کہ مکے کا راستہ خطروں سے پُر ہے اس لیے وہ حالات کا مسلسل پتا لگاتے رہتے تھے اور جن قافلوں سے ملاقات ہوتی تھی ان سے کیفیت دریافت کرتے رہتے تھے.. چنانچہ ان کا جلد ہی یہ اندیشہ قوی ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو قافلے پر حملے کی دعوت دے دی ہے لہٰذا ابو سفیان نے فوراً ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکے بھیجا کہ وہاں جاکر قافلے کی حفاظت کے لیے قریش میں نفیر عام کی صدا لگائے..
ضمضم نہایت تیز رفتاری سے مکہ آیا اور عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیڑی ، کجاوہ الٹا ، کرتا پھاڑا اور وادی مکہ میں اسی اونٹ پر کھڑے ہو کر آواز لگائی..
"اے جماعت قریش ! قافلہ , قافلہ.. تمہارا مال جو ابوسفیان کے ہمراہ ہے اس پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی دھاوا بولنے جارہے ہیں.. مجھے یقین نہیں کہ تم اسے پاسکو گے.. مدد ! مدد !''
یہ آواز سن کر لوگ ہر طرف سے دوڑ پڑے.. کہنے لگے.. "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ یہ قافلہ بھی ابن حضرمی کے قافلے جیسا ہے..؟ نہیں _ ہرگز نہیں.. اللہ کی قسم ! انہیں پتا چل جائے گا کہ ہمارا معاملہ کچھ اور ہے.."
چنانچہ سارے مکے میں دو ہی طرح کے لوگ تھے.. یا تو آدمی خود جنگ کے لیے نکل رہا تھا یا اپنی جگہ کسی اور کو بھیج رہا تھا اور اس طرح گویا سبھی نکل پرے.. خصوصاً معززین مکہ میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا.. صرف ابولہب نے اپنی جگہ ایک قرضدار کو بھیجا.. گردوپیش کے قبائل عرب کو بھی قریش نے بھرتی کیا اور خود قریشی قبائل میں سے سوائے بنوعدی کے کوئی بھی پیچھے نہ رہا.. البتہ بنو عدی کے کسی بھی آدمی نے اس جنگ میں شرکت نہ کی..
ابتدا میں قریش کے لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی جن کے پاس ایک سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں.. اونٹ کثرت سے تھے جن کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہوسکی.. لشکر کا سپہ سالار ابوجہل بن ہشام تھا.. قریش کے نو معزز آدمی اس کی رسد کے ذمے دار تھے.. ایک دن نو اور ایک دن دس اونٹ ذبح کیے جاتے تھے.. بہرحال یہ لوگ نہایت تیز رفتاری سے شمال کے رخ پر بدر کی جانب چلے جارہے تھے کہ وادی عسفان اور قدید سے گزر کر جحفہ پہنچے تو ابوسفیان کا ایک نیا پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے قافلے ، اپنے آدمیوں اور اپنے اموال کی حفاظت کی غرض سے نکلے ہیں اور چونکہ خدا نے ان سب کو بچا لیا ہے لہٰذا اب واپس چلے جائیے..
ابو سفیان کے بچ نکلنے کی تفصیل یہ ہے کہ وہ شام سے کاروانی شاہراہ پر چلے تو آرہے تھے لیکن مسلسل چوکنا اور بیدار تھے.. انہوں نے اپنی فراہمی اطلاعات کی کوشش بھی دوچند کر رکھی تھیں.. جب وہ بدر کے قریب پہنچے تو خود قافلے سے آگے جاکر مجدی بن عمرو سے ملاقات کی اور اس سے لشکر مدینہ کی بابت دریافت کیا.. مجدی نے کہا.. "میں نے کوئی خلافِ معمول آدمی تو نہیں دیکھا البتہ دو سوار دیکھے جنہوں نے ٹیلے کے پاس اپنے جانور بٹھائے.. پھر اپنے مشکیز ے میں پانی بھر کر چلے گئے..''
ابوسفیان لپک کر وہاں پہنچے اور ان کے اونٹ کی مینگنیاں اُٹھا کر توڑیں تو اس میں کھجور کی گٹھلی برآمد ہوئی.. ابو سفیان نے کہا.. "اللہ کی قسم ! یہ یثرب کا چارہ ہے.." اس کے بعد وہ تیزی سے قافلے کی طرف پلٹے اور اسے مغرب کی طرف موڑکر اس کا رخ ساحل کی طرف کردیا اور بدر سے گزرنے والی کاروانی شاہراہ کو بائیں ہاتھ چھوڑدیا.. اس طرح قافلے کو مدنی لشکر کے قبضے میں جانے سے بچالیا اور فوراْ ہی مکی لشکر کو اپنے بچ نکلے کی اطلاع دیتے ہوئے اسے واپس جانے کا پیغام دیا جو اسے جحفہ میں موصول ہوا.. جب معلوم ہوا کہ ابو سفیان کا قافلہ خطرہ کی زد سے نکل گیا ہے تو قبیلہ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے.. باقی فوج آگے بڑھی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
ابو سفیان کا پیغام سن کر مکی لشکر نے چاہا کہ واپس چلا جائے لیکن قریش کا طاغوت اکبر ابو جہل کھڑا ہوگیا اور نہایت کبر وغرور سے بولا.. "اللہ کی قسم ! ہم واپس نہ ہوں گے.. یہاں تک کہ بدر جاکر وہاں تین روز قیام کریں گے اور اس دوران اونٹ ذبح کریں گے.. لوگوں کو کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے.. لونڈیاں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور سارا عرب ہمارا اور ہمارے سفر واجتماع کا حال سنے گا اور اس طرح ہمیشہ کے لیے ان پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی.."
لیکن ابو جہل کے علی الرغم اخنس بن شُرَیْق نے یہی مشورہ دیا کہ واپس چلے چلو مگر لوگوں نے اس کی بات نہ مانی.. اس لیے وہ بنو زہرہ کے لوگوں کو ساتھ لے کر واپس ہوگیا کیونکہ وہ بنو زہرہ کا حلیف اور اس لشکر میں ان کا سردار تھا.. بنو زہرہ کی کل تعداد کوئی تین سو تھی.. ان کا کوئی بھی آدمی جنگ بدر میں حاضر نہ ہوا.. بعد میں بنو زہرہ اخنس بن شریق کی رائے پر حددرجہ شاداں وفرحاں تھے اور ان کے اندر اس کی تعظیم واطاعت ہمیشہ برقرار رہی..
بنو زہرہ کے علاوہ بنو ہاشم نے بھی چاہا کہ واپس چلے جائیں لیکن ابو جہل نے بڑی سختی کی اور کہا کہ جب تک ہم واپس نہ ہوں یہ گروہ ہم سے الگ نہ ہونے پائے..
غرض لشکر نے اپنا سفر جاری رکھا.. بنو زہرہ کی واپسی کے بعد اب اس کی تعداد ایک ہزار رہ گئی تھی اور اس کا رخ بدر کی جانب تھا.. بدر کے قریب پہنچ کر اس نے ایک ٹیلے کے پیچھے پڑاؤ ڈالا.. یہ ٹیلہ وادی کے حدود پر جنوبی دہانے کے پاس واقع ہے..
ادھر مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبکہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستے ہی میں تھے اور وادی ذفران سے گزررہے تھے , قافلے اور لشکر دونوں کے متعلق اطلاعات فراہم کیں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان اطلاعات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یقین کر لیا کہ اب ایک خون ریز ٹکراؤ کا وقت آگیا ہے اور ایک ایسا اقدام ناگزیر ہے جو شجاعت وبسالت اور جرأت وجسارت پر مبنی ہو.. کیونکہ یہ بات قطعی تھی کہ اگر مکی لشکر کو اس علاقے میں یوںہی دندناتا ہوا پھرتے دیا جاتا تو اس سے قریش کی فوجی ساکھ کو بڑی قوت پہنچ جاتی اور ان کی سیاسی بالادستی کا دائرہ دور تک پھیل جاتا.. مسلمانوں کی آواز دب کر کمزور ہو جاتی اور اس کے بعد اسلامی دعوت کو ایک بے روح ڈھانچہ سمجھ کر اس علاقے کا ہرکس وناکس جو اپنے سینے میں اسلام کے خلاف کینہ وعداوت رکھتا تھا , شر پر آمادہ ہوجاتا..
پھر ان سب باتوں کے علاوہ آخر اس کی کیا ضمانت تھی کہ کفار کا لشکر مدینے کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گا اور اس معرکہ کو مدینہ کی چہار دیواری تک منتقل کرکے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر تباہ کرنے کی جرأت اور کوشش نہیں کرے گا..؟ اگر مسلمانوں کے لشکر کی جانب سے ذرا بھی گریز کیا جاتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو مسلمانوں کی ہیبت وشہرت پر تو بہرحال اس کا نہایت بُرا اثر پڑتا..
حالات کی اس اچانک اور پُر خطر تبدیلی کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ منعقد کی جس میں درپیش صورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلہ ٔ خیالات کیا.. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جان نثارانہ تقریریں کیں.. پھر حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا..
''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے آپ کو جو راہ دکھلائی ہے اس پر رواں دواں رہئے.. ہم آپ کے ساتھ ہیں.. اللہ کی قسم ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ "تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو , ہم یہیں بیٹھے ہیں.." (۵: ۲۴) بلکہ ہم کہیں گے کہ آپ اور آپ کے پروردگار چلیں اور لڑیں اور ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ لڑیں گے.. اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! اگر آپ ہم کو برکِ غماد تک لے چلیں تو ہم راستے والوں سے لڑتے بھڑتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے.."
ان کی اس تقریر سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ دمک اٹھا.. آپ نے ان کے حق میں کلمہ خیر ارشاد فرمایا اور دعا دی..
یہ تینوں کمانڈر مہاجرین سے تھے جن کی تعداد لشکر میں کم تھی.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں کیونکہ وہی لشکر میں اکثریت رکھتے تھے اور معرکے کا اصل بوجھ انہیں کے شانوں پر پڑنے والا تھا.. درآں حالیکہ بیعت عقبہ کی رُو سے ان پر لازم نہ تھا کہ مدینے سے باہر نکل کر جنگ کریں.. اس لیے آپ نے مذکور ہ تینوں حضرات کی باتیں سننے کے بعد پھر فرمایا.. ''لوگو ! مجھے مشورہ دو.." مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر اور علمبردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے بھانپ لی.. چنانچہ انہوں نے عرض کیا.. "واللہ ! ایسا معلو م ہوتا ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا رُوئے سخن ہماری طرف ہے.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ہاں.."
انہوں نے کہا.. ''ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی سمع وطاعت کا عہد ومیثاق دیا ہے.. لہٰذا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کا جو ارادہ ہے اس کے لیے پیش قدمی فرمایئے.. اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے.. ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا.. ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دشمن سے ٹکرا جائیں.. ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جوانمرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں.. پس آپ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں.. اللہ برکت دے.."
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہوئے.. آپ پر نشاط طاری ہوگئی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. ''چلو اور خوشی خوشی چلو.. اللہ نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے.. واللہ ! اس وقت گویا میں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں.."
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌴================🌴
❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..
🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ
👉🏻Forward To All Groups Friends And Family Members For Sadq e Jaria


Post a Comment

0 Comments