Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 75

 ❤فــــداک ابــــی وامــــی سیــــرت النبــــی خاتــــم النبییــــن امام اعظــــم سید الانبیــــاء خیر البشــــرحضرت محمــــد رسول اللّٰــــہﷺ وعلی آلہ واصحــــابہ وسلــــم تسلیمــــا کثیــــرا


 🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻


قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔➐➎


🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️🌨️


حضرت سلمان فارسی جو ایران کے رہنے والے تھے اور تلاش حق میں سرگرداں تھے , حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے پانچ روز بعد مدینہ تشریف لائے اور اسلام قبول کیا..

ان کا مجوسی نام "ماہ بہ" تھا.. وہ ایران کے ایک موضع "جئے" کے رہنے والے تھے.. بعض نے دام ہرمز لکھا ہے.. بچپن ہی سے مذہب کی طرف جھکاؤ تھا.. آخر آتش کدہ کے خادم خاص بن گئے.. آگ کو ذرا سی دیر کے لئے بھی بجھنے نہ دیتے تھے..

الله تعالیٰ جس کے نصیب میں ہدایت لکھ دیتا ہے تو اس کے لیے ہدایت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے اور ہدایت کی توفیق انہی لوگوں کو ملتی ہے جو راہ حق کے متلاشی ہوں اور تعصب اور تنگ نظری سے پاک ہوں.. حضرت سلمان فارسی کا باپ پیشہ کے اعتبار سے کاشت کار تھا اور مذہباً آتش پرست تھا.. ان کے باپ نے ایک مرتبہ ان کو اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے بھیجا.. راستہ میں عیسائیوں کی عبادت گاہ تھی.. یہ اس کے اندر چلے گئے اور ان کے طریقہٴ عبادت کو دیکھ کر متاثر ہوئے..

وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے.. (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کچھ نہ کچھ اس وقت تک زندہ ہوں گی.. بعد میں تو عیسائیوں نے عبادت گاہوں کو موسیقی اور شرکیہ عقائد پھیلانے کا مرکز بنالیا..) سلمان فارسی رضی الله عنہ شام تک وہیں رہے.. واپس آ کر باپ کو پورا حال سنایا اور کہا کہ ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے.. باپ نے تردید کی اور بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہ اصرار کرتے رہے کہ آتش پرستی سے عیسائیوں کا دین بہتر ہے..

جب باپ کو خدشہ ہوا کہ یہ آبا واجداد کا مذہب چھوڑ دیں گے تو اس نے ان کو گھر میں قید کر دیا.. کسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ گھر سے فرار ہو کر ایک قافلہ کے ساتھ شامل وہاں چلے گئے جو عیسائیوں کے دین کا مرکز تھا.. وہ عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کے پاس رہنے لگے..

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فرماتے ہیں.. "یہ شخص بد دیانت اور دنیا پرست نکلا.. لوگوں کو صدقہ وخیرات کی ترغیب دلاتا اور جو اموال صدقہ کی مد میں آتے , وہ خود رکھ لیتا اور مسکینوں کو کچھ نہ دیتا.." اس کی موت کے بعد حضرت سلمان رضی الله عنہ نے اس کے ماننے والوں کو اس کی حقیقت بتائی اور اس کے گھر میں رکھے ہوئے سونے چاندی سے بھرے ہوئے سات مٹکے دکھائے تو وہ لوگ بڑے برہم ہوئے اور ان کے دل سے اس پادری کی وہ وقعت نکل گئی.. انہوں نے اس کو دفن بھی نہ کیا بلکہ اس کی لاش کو سولی پر چڑھا دیا اور پتھر مار مار کر چورا کر دیا..

اس کے بعد دوسرا پادری اس منصب پر فائز ہوا.. حضرت سلمان رضی الله عنہ فرماتے ہیں.. "یہ دوسرا شخص اس پہلے شخص سے بہت افضل تھا اور دنیا سے بے رغبت تھا.. مجھے اس سے محبت ہو گئی اور ایک عرصہ تک اس کے ساتھ گرجا میں رہا.. موت کے وقت اس نے وصیت کی کہ اب تم فلاں شخص کے پاس چلے جاؤ کیوں کہ اس کے سوا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والا کوئی اور میرے علم میں نہیں ہے جو شہر موصل میں رہتا تھا.. میں تلاش کرتا ہوا اس تک جا پہنچا.. یہ شخص بھی عابد وزاہد تھا.. میں اس کے ساتھ رہنے لگا.."

جب اس شخص کی وفات کا وقت آیا تو اس نے کسی اور کا پتہ بتا دیا جو شہر نصیبین میں رہتا تھا.. حضرت سلمان فارسی اس کے پاس رہتے رہے.. پھر اس کی بھی موت آگئی اور وہ شہرعموریا کے کسی عابد کا پتہ بتا گیا.. حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ اس کے پاس رہنے لگے اور کمانے کا مشغلہ بھی اختیار کر لیا اور کچھ مال بھی جمع ہو گیا.. جب اس عموریا والے پادری کو موت نے آ گھیرا تو حضرت سلمان فارسی نے اس سے دریافت کیا اب بتائیے میں آپ کے بعد کہاں جاؤں..؟

اس پر اس نے جواب دیا.. "بیٹا ! اب تو میرے علم میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے دین پر پوری طرح قائم ہو.. اب تم الله کے آخری نبی کی آمد کا انتظار کرو.. ان کے تشریف لانے کا زمانہ قریب آچکا ہے.. وہ عرب میں تشریف لائیں گے اور ایک ایسے شہر کی طرف ہجرت کریں گے جس کے دونوں طرف کنکریلی زمین ہوگی اور اس شہر میں کھجوروں کے باغات ہوں گے.. ان کی ایک نشانی یہ ہو گی کہ ہدیہ قبول فرمائیں گے اور صدقہ نہ کھائیں گے.. اور ان کی نبوت کی ایک علامت یہ ہو گی کہ ان کے دونوں کاندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی.. لہٰذا تم عرب چلے جاؤ.."

یہ کہہ کر اس پادری نے آخرت کا راستہ لیا اور حضرت سلمان فارسی عرب پہنچنے کی تدبیریں سوچنے لگے..

عرب کے کچھ لوگ تجارت کے لیے عموریا پہنچ گئے.. حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو.. میں تمہیں معاوضہ کے طور پر یہ بکریاں اور گائیں دوں گا.." وہ لوگ انہیں ساتھ لے چلے اور وادی القر'ی پہنچ کر انہوں نے دھوکہ کیا اور حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کو اپنا غلام ظاہر کرکے فروخت کر ڈالا.. خریدنے والے شخص نے مدینہ کے ایک یہودی کے ہاتھ ان کو فروخت کر دیا جو قبیلہ بنو قریظہ کا فرد تھا.. وہ انہیں مدینہ لے گیا..

حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ "مدینہ کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہی وہ شہر ہے جہاں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما کر تشریف لائیں گے.."

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں ایک ایک دن گن رہے تھے کہ وہ مبارک گھڑی آپہنچی اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے.. حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ حاضر ہوئے اور پادری کی بتائی ہوئی تمام علامات دیکھ لیں.. جب مہر نبوت دیکھنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اٹھا دی.. حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھ لی اور اسلام قبول کر لیا..

اسلام تو قبول کر لیا لیکن یہودی کی غلامی سے آزادی کا مسئلہ تھا.. اس نے کہا کہ تمہاری آزادی کے لیے یہ شرط ہے کہ تم تین سو کھجوروں کے پودے لگاؤ.. جب وہ تمام درخت پھل دے دیں اور تم چالیس اوقیہ یعنی تقریباً پونے سات سیر سونا ادا کر دو تو تمہیں غلامی سے چھٹکارا مل سکتا ہے..

حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس باغ میں جا کر اپنے مبارک ہاتھوں سے 300 پودے لگا دیے اور پھر یہ معجزہ ہوا کہ سارے درختوں نے اسی سال پھل دے دیا.. جب کہ کھجور کے پودے میں پانچ سال میں پھل آتا ہے..

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس انڈے کے برابر کہیں سے سونا آگیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کو بلا کر فرمایا.. "یہ لے جاؤ اور تمہارے ذمہ جو سونا واجب الادا ہے ، وہ ادا کرو.."

حضرت سلمان رضی الله عنہ نے عرض کیا.. "یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اتنے تھوڑے سے سونے میں چالیس اوقیہ کا وزن کیسے پورا ہوگا..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یقین رکھو.. الله تعالیٰ تمہیں اسی سے سبک دوش فرما دے گا.."

چناں چہ ایسا ہی ہوا.. جب اس یہودی نے سونے کی اس ڈلی کو تولا تو پورا وزن نکلا اور ان کو آزادی مل گئی.. حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگا اور غزوہٴ خندق میں شریک ہوا.. یہ تمام تفصیل حضرت سلمان فارسی کی زبانی جمع الفوائد ، شمائل ترمذی اور طبقات ابن سعد سے نقل کی گئی ہے..



الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری


چھلی اقساط میں بتایا جا چکا ہے کہ قریش مکہ کو مسلمانوں کا یثرب میں امن و سکون کسی صورت برداشت نہ ہوا.. نبوت کے ابتدائی تیرہ سال مکہ میں اس طرح گزرے کہ مسلمانوں کو مارا گیا ، پیٹا گیا اور جلتے ہوئے پتھروں پر ان کو لٹایا گیا , ان کا سماجی و معاشی مقاطعہ کرکے پہاڑی کی گھاٹی میں قید کردیا گیا ، خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی گئی اور جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بادل ناخواستہ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا گیا اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے انھوں نے کھلی اور چھپی ہر قسم کی تدبیریں شروع کردیں.. انہوں نے مہاجرین کو دھمکیاں دینی شروع کیں اور کہلا بھیجا کہ تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کر نکل آئے.. ہم یثرب پہنچ کر تمھارا ستیاناس کردیتے ہیں..


یہ صورت حال مدینہ کے مسلمانوں کے وجود کے لئے بڑی پر خطر ہوگئی تھی.. اس لئے کہ قریش ان کے استیصال کا تہیہ کر چکے تھے.. مکہ میں مسلمانوں کا دشمن ایک ہی گروہ تھا یعنی مشرکین قریش.. لیکن مدینہ میں تین گروہ ان کے حریف ہوگئے تھے..


(۱)  ایک تو وہی مکہ کے پرانے دشمن قریش جو وطن سے بے وطن کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کا پیچھا چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے..


(۲) دوسرے مدینہ اور آس پاس کی بستیوں کے یہودی جنھوں نے اگرچہ کہ مسلمانوں سے دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا مگر ان کے دلوں میں دشمنی کی آگ سلگ رہی تھی..


(۳) تیسرے منافقین جو مسلمانوں کے لئے آستین کا سانپ تھے.. تاہم مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی زندگی میں بڑا فرق تھا.. مدینہ کی آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا تھا.. مکہ اور دوسرے مقامات کے مسلمان بھی اس امن گاہ میں پناہ لینے کے لئے جمع ہو رہے تھے.. اس لئے مدینہ نے مرکز اسلام کی حیثیت حاصل کرلی تھی..


ان پُرخطر حالات میں جو مدینہ میں مسلمانوں کے وجود کے لیے چیلنج بنے ہوئے تھے اور جن سے عیاں تھا کہ قریش کسی طرح ہوش کے ناخن لینے اور اپنے تمرد سے باز آنے کے لیے تیار نہیں , اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت فرمادی لیکن اسے فرض قرار نہیں دیا.. اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کا جوارشاد نازل ہو ا وہ یہ تھا..


''جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقینا ً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے..'' (۲۲: ۳۹)


پھر اس آیت کے ضمن میں مزید چند آیتیں نازل ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ یہ اجازت محض جنگ برائے جنگ کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس سے مقصود باطل کے خاتمے اور اللہ کے شعائر کا قیام ہے.. چنانچہ آگے چل کر ارشاد ہوا..


''جنہیں ہم اگر زمین میں اقتدار سونپ دیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ ادا کریں گے ، بھلائی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے روکیں گے..'' (۲۲: ۴۱)


قتال کی یہ اجازت پہلے پہل قریش تک محدود تھی.. پھر حالات بدلنے کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی.. چنانچہ آگے چل کر یہ اجازت وجوب سے بدل گئی اور قریش سے متجاوز ہوکر غیر قریش کو بھی شامل ہوگئی..


جنگ کی اجازت تو نازل ہوگئی لیکن جن حالات میں نازل ہوئی وہ چونکہ محض قریش کی قوت اور تمرد کا نتیجہ تھے اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی ہے.. اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسلط کے اس پھیلاؤ کے لیے کئی منصوبے اختیار کیے..


سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی حفاظت کے لئے رضاء کاروں کے دستے متعین کئے.. یہ رضا کار ساری ساری رات جاگ کر شہر کے ارد گرد پہرہ دیتے اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے..


دوسرا قدم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اٹھایا کہ کچھ رضاء کار دستے مکہ سے مدینہ آنے والے راستوں کی دیکھ بھال کے لئے روانہ کئے.. کبھی کبھی ان کی قریش کے آدمیوں سے مد بھیڑ بھی ہوجاتی..


تیسرا اہتمام یہ کیا کہ مدینہ کے آس پاس بسنے والے مختلف قبیلوں سے دوستی کے معاہدے کرنے شروع کردئیے تاکہ یہ لوگ دشمنوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں امن و امان قائم رکھنے میں مسلمانوں کی مدد کریں.. یہ کام زیادہ تر انہی دستوں سے لیا جاتا.. کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی تشریف لے جاتے.. چنانچہ بنی ضمرہ ، بنی مدلج اور جہینہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن گئے..


مگر مکہ والے کب باز آنے والے تھے.. جمادی الآخر 2 ہجری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی مدلج سے معاہدہ کرکے مدینہ واپس آئے تو چند ہی روز بعد اطلاع ملی کہ مکہ کے ایک سردار "کرز بن جابر فہری" نے مدینہ کی چراہ گاہ پر حملہ کیا اور کچھ مویشی لوٹ کر لے گیا.. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے تعاقب میں بدر کے قریب وادی سفوان تک تشریف لے گئے مگر کرز ہاتھ نہ آیا.. ان کی قسمت میں قبول اسلام کی عزت لکھی تھی چنانچہ مشرف بہ اسلام ہوکر فتح مکہ کے موقع پر شہید ہوئے.. تاہم اس واقعہ سے مسلمانوں پر اہل مکہ کے عزائم بے نقاب ہوگئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار فرمانے میں زیادہ اہتمام فرمایا..


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🌴================🌴

❤سیرت النبیﷺ.. مولانا شبلی نعمانی..

🌹سیرت المصطفیٰﷺ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..

💐الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

🌻تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ


👉🏻Forward To All Groups Friends And Family Members For Sadq e Jaria


Post a Comment

0 Comments